فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کرنے کی قرارداد، کیا مسئلہ حل ہو گیا ہے؟
فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کرنے کی قرارداد، کیا مسئلہ حل ہو گیا ہے؟
بدھ 21 اپریل 2021 6:08
وسیم عباسی، زبیر علی خان
تجزیہ کار امتیاز گل کے مطابق قومی اسمبلی میں پیش کی گئی قرارداد اچھی ہے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
وفاقی حکومت نے کالعدم تحریک لبیک پاکستان کے ساتھ طے کیے گئے معاہدے کے تحت قومی اسمبلی میں توہین رسالت کے معاملے پر قرار داد پیش کر دی ہے۔
قومی اسمبلی میں تحریک انصاف کے رکن اسمبلی امجد علی خان کی جانب سے منگل کو پیش کی گئی قرار داد کے مطابق فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کرنے کے حوالے سے ایوان میں بحث کی جائے جبکہ تمام یورپی ممالک بالخصوص فرانس کو اس معاملے کی سنگینی سے آگاہ کیا جائے۔
وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری کے مطابق ’حکومت نے پارلیمان میں قرارداد پیش کر کے کالعدم تحریک لبیک پاکستان کے ساتھ کیا معاہدہ پورا کر دیا ہے اور تناؤ کا ماحول ختم ہو گیا ہے۔‘
ایوان میں پیش کی گئی قرار داد کی حیثیت کیا ہوتی ہے؟
پلڈاٹ کے سربراہ احمد بلال محبوب نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ کسی بھی قرارداد کی قانونی حیثیت ایک سفارش کی ہوتی ہے۔
’عمومی طور پر اس قسم کی قرارداد اس وقت پیش کی جاتی ہیں جب حکومت کو کسی نازک مسئلے کا سامنا ہو اور وہ فیصلہ کرنے میں ’ڈبل مائنڈڈ‘ ہو۔ حکومتَ وقت یہ ذمہ داری پارلیمنٹ کے ساتھ مل کر لینا چاہتی ہے تاکہ اس کی ساری ذمہ داری حکومت پر نہ پڑے بلکہ تمام منتخب نمائندوں کا سہارا لینا چاہتی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’منگل کو پیش کی گئی قرارداد کا بھی مقصد یہی ہے کہ حکومت اپنے فیصلے کو مضبوط کرنے کے لیے پارلیمنٹ کا سہارا لے رہی ہے۔ ’پارلیمان کو اب تھوڑا سا وقت بھی مل گیا ہے تاکہ متفقہ طور پر کوئی فیصلہ کیا جا سکے۔‘
قرارداد منظور ہونے کی صورت میں حکومت پر عمل درآمد کے لیے دباؤ ہوگا۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
قرارداد متفقہ طور پر یا اکثریت سے منظور ہونے کی قانونی حیثیت کے حوالے سے احمد بلال محبوب نے کہا کہ ’کوئی بھی قرارداد متفقہ یا اکثریتی رائے سے منظور کر لی جائے تو حکومت قانونی طور پر اس پر عملدرآمد کرنے کی پابند تو نہیں ہے لیکن اخلاقی طور پر حکومت کے پاس قرارداد پر عملدرآمد کرنے کے علاوہ نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ہوگا۔ اگر فرانسیسی سفیر کو ملک بدر کرنے کے بجائے اس مسئلے پر کوئی اور متفقہ لائحہ عمل تیار کر لیا جاتا ہے تو یہ حکومت کی اخلاقی فتح ہوگی کہ ہم تو پہلے کہتے تھے کہ یہ مسئلے کا حل نہیں ہے۔‘
کیا حکومتی قرارداد تحریک لبیک کے ساتھ کیے گئے معاہدے کے عین مطابق تھی؟
سینیئر تجزیہ کار امتیاز گل نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے یہ ایک اچھی قرارداد ہے جو صرف اسی صورت میں موثر ثابت ہوسکتی ہے جب تمام جماعتیں متفقہ لائحہ عمل اختیار کریں۔
انہوں نے کہا کہ ’اگر کوئی جماعت اس مذہبی معاملے پر سیاست کرے تو نہ یہ ان کے لیے اچھا ہوگا نہ ہی پاکستان کے لیے بہتر ہوگا۔‘
صحافی حامد میر کے مطابق قرارداد سے ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت نے سفارتی زبان استعمال کی ہے۔ فوٹو: اے ایف پی
سینیئر صحافی اور تجزیہ کار حامد میر نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’حکومت کی طرف سے جو قرارداد پیش کی گئی اس سے پہلے وزیر داخلہ شیخ رشید احمد کا بیان آیا جس میں کہا گیا تھا کہ 20 اپریل کو ہم فرانسیسی سفیر کی ملک بدری کے حوالے سے قراردار قومی اسمبلی میں پیش کریں گے اور تحریک لبیک دھرنا ختم کرے گی۔ لیکن قومی اسمبلی میں جو قرارداد پیش کی گئی ہے اس میں فرانسیسی سفیر کو ملک بدری کے حوالے سے بحث کی بات کی گئی ہے جبکہ فرانسیسی سفیر کو نکالنے کے حوالے سے کوئی بات نہیں کی گئی۔‘
حامد میر نے کہا کہ ’میرے ذرائع کے مطابق حکومت کی حکمت عملی یہ ہے کہ تحریک لبیک پر عائد پابندی برقرار رہے گی جبکہ انہیں اب رعایتیں نہیں دی جائیں گے اور اس معاملے پر یوٹرن نہیں لے گی۔ اس قرارداد سے سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ حکومت نے سخت بات کرنے کے بجائے سفارتی زبان استعمال کر کے درمیانی بات کی ہے۔‘