علاقے کے مکین چار خاندانوں کے گھروں پر یہودیوں نے ملکیت کا دعویٰ کیا ہوا ہے۔ رواں سال کے شروع میں یروشلم کی ضلعی عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ یہ گھر یہودی خاندانوں کی ملکیت ہیں جو انہوں نے دہائیوں پہلے خریدے تھے۔
یہودی درخواست گزاروں کا دعویٰ ہے کہ ان کے خاندان نے سنہ 1948 کی جنگ کے دوران یہ زمین کھو دی تھی۔
جبکہ مقدمے میں نامزد فلسطینی خاندانوں نے ثبوت بھی مہیا کیے ہیں جن کے تحت یہ گھر اردن کے حکام سے خریدے گئے تھے۔ اس وقت مشرقی یروشلم کا کنٹرول اردون کے پاس تھا۔
فلسطینی خاندانوں کی حمایت میں اردن کی حکومت نے کاغذات بھی مہیا کیے ہیں۔
ضلعی عدالت کے حکم کے بعد سے شیخ جراح میں تنازع شدت اختیار کر گیا ہے۔ علاقہ مکینوں کے خیال میں ضلعی عدالت کا فیصلہ مشرقی یروشلم سے عربوں کو نکالنے کی جانب ایک اور قدم ہے۔
اسرائیل کی سپریم کورٹ نے دونوں فرقین کو سمجھوتہ کرنے کا کہا ہے۔
سپریم کورٹ کے مطابق اگر کوئی بھی فریق سمجھوتہ کرنے پر تیار نہیں تو پھر فیصلہ کیا جائے گا کہ فلسطینیوں کو ضلعی عدالت کے فیصلے کے خلاف اپیل کرنے کا حق حاصل ہے یا نہیں۔
فلسطینی وزیر خارجہ ریاض المالکی نے بین الاقوامی فوجداری عدالت کو خط لکھا ہے کہ شیخ جراح علاقے میں اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں کے خلاف جرائم پر واضح مؤقف اپنایا جائے۔
دوسری جانب حماس کے رہنما نے خبردار کیا ہے کہ شیخ جراح تنازعے پر اسرائیل کو بھاری قیمت ادا کرنا پڑے گی۔