کورونا ویکسین سے اب مرنے کی افواہ،’بھائی کوئی بلب نہیں جل رہا‘
پاکستان میں ویکسینیشن کا آغاز فروری سے ہوا تھا۔ (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان سمیت دنیا بھر میں کورونا وائرس سے بچاؤ کے لیے ویکسینیشن کے آغاز کے ساتھ ہی سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر ویکسین کے حوالے سے مختلف جھوٹی افواہیں سامنے آ رہی ہیں۔
ویکسین کے ذریعے انسانی جسم میں چپ داخل کرنے کی افواہ ہو یا پھر جسم سے بجلی کی پیداوار کے بعد بلب روشن ہونے کی خبریں، ایسی دلچسپ افواہیں آئے روز سوشل میڈیا کی زینت بنتی ہیں جس کے بعد صارفین کی جانب سے دلچسپ تبصرے ان کو مزید دلچسپ بنا دیتی ہیں۔
ایسی ہی ایک افواہ واٹس ایپ پر موضوع گفتگو ہے جس میں نوبل انعام یافتہ سائنسدان لوک مونٹگینیئر سےمنسوب بیان شیئر کیا جا رہا ہے کہ ’تمام ویکسینیٹڈ لوگ دو سال کے اندر ہی مر جائیں گے۔‘
تاہم جعلی خبروں پر نظر رکھنے والی ویب سائٹس کے مطابق لوک مونٹگینیئر کے ویڈیو انٹرویو کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پھیلایا گیا جس میں انھوں نے دعویٰ کیا تھا کہ وبا کے دنوں میں ویکسین لگوانا ناقابل یقین ہے کیونکہ اس سے وائرس مزید طاقتور ہو سکتا ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق سائنسدان لوک مونٹگینیئر سے متعلق سوشل میڈیا پر شیئر کیے گئے بیان کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔
روئٹرز کا کہنا ہے کہ لوک مونٹگنیئر کو 2008 میں نوبل انعام سے نوازا گیا تھا۔ مونٹگنیئر پر ایچ آئی وی اور قوت مدافعت پر تبصرے کے حوالے سے بھی تنقید کی گئی تھی۔
ان کو سارس کو 2 جو کورونا وائرس کا سبب ہے، کے حوالے سے بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ یہ ایک لیبارٹری سے پھیلا ہے۔
انڈین میگزین انڈیا ٹو ڈے کے اینٹی فیک نیوز وار روم کے مطابق بھی اگرچہ لوک مونٹگینیئر نے اپنے انٹرویو میں یہ ضرور کہا ہے کہ ’وبا کے دوران لوگوں کو ویکسین لگانا ایک ناقابل قبول غلطی ہے۔‘ لیکن انہوں نے یہ نہیں کہا کہ جن افراد نے کورونا وائرس کے خلاف ویکسین لگوائی ہے وہ دو سال میں مر جائیں گے۔
اینٹی فیک نیوز وار روم کا اس حوالے سے تحقیقات کے بعد کہنا ہے کہ کئی نیوز ویب سائٹس نے اس خبر کو شائع کیا ہے۔ اگر لوک مونٹگینیئر نے ایسا کوئی بیان دیا ہوتا تو عالمی میڈیا ادارے اسے ضرور چلاتے لیکن کسی معتبر میڈیا ادارے نے لوک مونٹگینیئر سے منسوب یہ خبر نہیں چلائی۔
واضح رہے کہ عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او نے کورونا وائرس کے خلاف ویکسینیشن کے حوالے سے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ ’ویکسین ہمارے مدافعتی نظام کے ٹارگٹ وائرس کو پہچاننے کے لیے تربیت دیتی ہیں اور اس بیماری کو روکنے کے لیے اینٹی باڈیز تشکیل دیتی ہیں۔ ویکسینیشن کے بعد جسم اس وائرس سے لڑنے کے لیے تیار ہو جاتا ہے اور یہ بالکل محفوظ ہے۔‘
دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی یہ پیغام مختلف سماجی رابطوں کی ویب سائٹس کے ذریعے پھیلایا گیا مگر دلچسپ بات یہ رہی کہ عوام کی آسانی کے لیے ایک مقامی اردو اخبار نے اس پیغام کا اردو ترجمہ کیا جس کو پاکستانی صارفین نے دیکھتے ہی دیکھتے سوشل میڈیا پر وائرل کر دیا جس کے بعد صارفین میں ویکسین کے حوالے سے اضطراب دیکھا گیا جبکہ کچھ نے تصویر شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ یہ خبر غلط ہے۔
کچھ صارفین دو سال بعد مر جانے والی خبر سے اتنا خوفزدہ ہوگئے کہ اپنے پاس رہ جانے والے وقت کے بارے میں سوچنے لگے تو کچھ صارفین اس خبر پر کان نہ دھرنے کی تاکید کرتے رہے۔
اسی حوالے سے صارف عدنان خان یوسفزئی جنہوں نے ویکسین لگوالی ہے، لکھتے ہیں ’بھائی! مجھے غلط ویکسین لگائی گئی ہے نہ ہی کوئی بلب جل رہا ہے نہ ہی کوئی مقناطیس چپک رہا ہے۔‘
صارف آئی ایم خان نے دو سال بعد مرنے والی افواہ کے بارے میں لکھا کہ مطلب میرے پاس دو سال ہیں، ابھی حج کے لیے پیسے بھی نہیں ہیں۔