ہندی میں دھکتا ہوا کوئلہ ’انگارا‘ کہلاتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ’انگارا‘ کی تصغیر ’انگاری‘ ہوتی مگر ایسا نہیں ہوا بلکہ اس لفظ کا پہلا حرف ’چ‘ سے بدل جانے پر اس کی تصغیر ’انگاری‘ کے بجائے ’چنگاری‘ ہوگئی۔
’الف‘ اور ’چ‘ کی یہ باہم تبدیلی پنجابی زبان میں بھی دیکھی جا سکتی ہے، مثلاً پہلے لفظ کے بدلنے اور دوسرے کے ساقط ہوجانے پر لفظ ’چیل‘ پنجابی میں ’اِل‘ ہوگیا ہے۔
پنجاب کے کتنے ہی شہروں اور قصبات میں چیلوں اور کوؤں کو ڈالا جانے والا گوشت ’اِلاں کاواں دا گوشت‘ کی صداؤں کے ساتھ فروخت ہوتا ہے۔
برسبیل تذکرہ عرض ہے کہ بھلے وقتوں میں جب کہ ابھی آلہ مقیاس الحرارت (Thermometer) ایجاد نہیں ہوا تھا، گرمی کی انتہائی شدت و حدت کا اندازہ چیل کے انڈا چھوڑ دینے سے کیا جاتا تھا۔ چنانچہ کہاوت ہے کہ ’اتنی گرمی کہ چیل نے انڈا چھوڑ دیا۔‘
حقیقت بھی یہی ہے کہ اپنے انڈوں کا ہردم دھیان رکھنے والی چیل سخت گرمی میں انڈوں سے اُٹھ کھڑی ہوتی ہے۔ دیکھیں اس بات کو احمد آباد (انڈیا) کے محمد علوی کس طور بیان کر رہے ہیں:
چیل نے انڈا چھوڑ دیا
سورج آن گرا چھت پر
اب واپس حروف کے صوتی تبادل کی طرف آتے ہیں کہ آج کا بنیادی موضوع یہی ہے۔ حرف ’ب‘ عام طور پر جن حروف سے بدلتا ہے اُن میں ’پ اور واؤ‘ کے علاوہ حرف ’ف‘ بھی شامل ہے۔
مثلاً انگریزی الفاظ Video اور Volvo عربی زبان میں بالترتیب ’فیدیو‘ اور’فولفو‘ کی صورت میں لکھے جاتے ہیں۔ ایسے ہی ہندی اسم ’شِیوا‘ اور ’مہادیو‘ عربی میں بالترتیب ’شیفا‘ اور ’مہادیف‘ ہوجاتے ہیں۔
آسان لفظوں میں کہیں تو ’واؤ‘ کی وہ آواز جو'W' کے بجائے 'V' سے قریب ہوعربی میں ’ف‘ سے بدل جاتی ہے(جدید عربی میں اس کے لیے ایک نیا حرف وضع کیا گیا ہے جس میں 'ف' پر تین نقطے ہوتے ہیں)۔
اب حرف کی اس تبدیلی کو ذہن میں رکھیں اور انگریزی لفظ 'cave' پر غور کریں،جس کے معنی ’غار‘ ہیں۔ عام خیال کے مطابق انگریزی cave کی اصل عربی کا ’کَھف‘ ہے۔ ممکن ہے ایسا ہی ہو مگر اس بات کا بھی امکان ہے کہ cave ہندی سے براہِ راست انگریزی میں گیا، اس لیے کہ ’کھف‘ اصلاً عربی لفظ نہیں ہے بلکہ اس کی اصل ہندی کا ’کھوہ‘ ہے۔
عرب و ہند کے تجارتی تعلقات قبل از اسلام بھی قائم تھے، ایسے میں تجارتی سامان کے ساتھ الفاظ کا تبادلہ بھی فطری بات تھی۔ اس ضمن ہندی الفاظ ’مشک، زنجبیر، چندن اور چترنگ‘ کا حوالہ پہلے بھی دیا جاچکا ہے، جوعرب پہنچ کربالترتیب ’مسک، زنجبیل، صندل اور شطرنج‘ ہوگئے ہیں۔
ایسے ہی جب ہندی ’کھوہ‘ سرزمین عرب پہنچا تو اہل عرب نے اس کے آخری ’ہ‘ کو حذف کردیا نتیجتاً ’کھو‘ باقی بچا، جو ’واؤ‘ کے ’ف‘ سے بدلنے پر ’کھو‘ سے ’کھف‘ ہوگیا، جسے اردو مخصوص وجہ کی بنیاد پر ’کہف‘ لکھا جاتا ہے۔
عربی میں ’کہف اور غار‘ دونوں الفاظ مستعمل ہیں، بعض اہل علم کے مطابق ’کہف‘ میں ’غار‘ کی بہ نسبت کشادگی پائی جاتی ہے، یہی وجہ ہے کہ نصف درجن سے زائد افراد کہف گزیں ہوئے اور ’اصحاب کہف‘ کہلائے، جب کہ غارثور اور غارحرا کو آج بھی دیکھا جاسکتا ہے کہ ان میں اتنے لوگوں کے سما جانے کی گنجائش نہیں ہے۔
اب ’کہف‘ کی نسبت سے آخری بات اور وہ یہ کہ ’اصحاب کہف‘ جس کے ظالم و جور سے بچنے کے لیے پناہ گزین ہوئے تھے مؤرخین نے اُس رومی بادشاہ کا نام ’دقیانوس‘ بیان کیا ہے۔
اصحاب کہف میں سے ایک شخص جب کئی سو سال کی نیند کے بعد بازار گیا تو لوگ عہدِ دقیانوس کے سکے دیکھ کر حیران رہ گئے، یوں ان دقیانوسی سکوں کی وجہ سے کُھلا کہ کہف گزین ہونے والے یہ نیک نفس کئی سو سال سوتے رہے ہیں۔
بعد میں لفظ ’دقیانوس‘ پرانے اور اگلے وقتوں کے معنی میں برتا جانے لگا، جب کہ رجعت پسند کو تحقیراً ’دقیانوس‘ کہا گیا کہ پرانے طور طریقوں پر اصرار کرتا ہے۔ اس کے علاوہ دقیانوس سے لفظ دقیانوسی اور دقیانوسیت بھی وضع کرلیا گیا۔
صوتی تبادلے کے ضمن میں حرف ’ی‘ اور ’ج‘ کے باہم بدل جانے کے حوالے سے پہلے بھی اشارہ کرآئے ہیں۔ اس تبادلے کو مختلف ناموں میں دیکھا جاسکتا ہے مثلاً مشہور تاریخی شہر یروشلم کی ایک صورت ’جروشلم‘، اور مشہور دریا ’یمنا‘ کو ’جمنا‘ بھی کہا جاتا ہے۔
حروف کی اس تبدیلی کو ذہن میں رکھیں اور متحدہ عرب امارات میں جاری آزادی کی پچاس سالہ تقریب ’اليوبيل الذہبي‘ پرغور کریں۔ بات کچھ مشکل نہ ہوجائے اس لیے عرض ہے کہ ’اليوبيل الذہبي‘ دراصل انگریزی 'golden jubilee/ گولڈن جوبلی‘ کا عربی ترجمہ ہے۔ دیکھا جا سکتا ہے کسی طرح ’جوبلی‘ عربی میں ’یوبیل‘ ہوگیا ہے۔
اس حرفی تبدیلی کے بعد اب لفظ 'jubilee' کی تاریخ ملاحظہ کریں۔ اندازہ ہوگا کہ لفظ کسی طرح چولا بدلتا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے کیا سے کیا ہوجاتا ہے۔
'جوبلی' کی اصل عبرانی لفظ 'یوبیل' ہے، جس کے لغوی معنی 'مینڈھے' کے ہیں، بظاہر جوبلی یعنی جشن اور مینڈھے میں کوئی مناسبت نظر نہیں آتی لیکن یہ معلوم کرنے کے بعد اس کی حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ یہودی ہر پچاس سال پر فرعون کے مظالم سے آزادی کا جشن مناتے اور اظہار مسرت کے لیے قرنا پھونکتے تھے۔
چونکہ قرنا مینڈھے کے سینگ (Ram's horn)کا ہوتا تھا اس لیے اس پچاس سالہ جشن آزادی کو ہی 'یوبیل' کہا جانے لگا کیوں کہ اس جلسے کی سب سے نمایاں کارروائی قرنا بجانا ہوتی تھی۔
پھر گزرتے وقت کے ساتھ اب ہر پچاس سالہ جشن کو 'یوبیل' کہا جانے لگا جو یورپی زبانوں میں 'جوبلی' ہو کر جشن کے معنی میں استعمال ہوا اور یوں پچیس، پچاس اور ستر سالہ جشن بالترتیب سلور جوبلی، گولڈن جوبلی اور پلاٹینیم جوبلی کہلایا۔