انڈیا میں متنازع قانون کے تحت زیر حراست 84 سالہ پادری کی جیل میں موت
انڈیا میں متنازع قانون کے تحت زیر حراست 84 سالہ پادری کی جیل میں موت
پیر 5 جولائی 2021 21:42
انڈین شہریوں نے پادری سٹان سوامی کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا (فوٹو: اے ایف پی)
حکام کے مطابق ’انسداد دہشت گردی قوانین کے تحت نو ماہ سے بغیر کسی مقدمے کے قید میں رکھے گئے انسانی حقوق کے کارکن اور مذہبی پیشوا کی پیر کو ضمانت کی درخواست کی سماعت سے قبل موت واقع ہوگئی۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق 84 سالہ پادری سٹان سوامی نے پسماندہ قبائلی کمیونیٹیز کے لیے مہم چلائی، انہیں 2018 میں انڈیا کی مختلف ذاتوں کو مبینہ تشدد پر اکسانے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا۔
پارکنسن اور دیگر بیماریوں میں مبتلا ہونے کے باوجود پادری سٹان سوامی کی ضمانت کی درخواست مسترد کر دی گئی تھی۔
کورونا وائرس سے متاثر ہونے کے بعد انہیں مئی میں ہسپتال میں داخل کیا گیا تھا جبکہ ہفتے کے اختتام پر ان کو ہارٹ اٹیک بھی ہوا تھا۔
سوامی کو غیر قانونی سرگرمیوں کے انسداد کا ایکٹ (یو اے پی اے) کے تحت تحویل میں لیا گیا تھا۔ اس قانون کے تحت ملزمان کو غیر معینہ مدت تک تحویل میں رکھنے کی اجازت ہے۔
وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت نے اس قانون کو صحافیوں، طلبہ اور دیگر افراد کو گرفتار کرنے کے لیے استعمال کیا ہے۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ ’یہ حکومت کی جانب سے اختلاف رائے کو ختم کرنے کی کوشش ہے۔‘
فروری میں حکومت نے کہا تھا کہ ’2016 اور 2019 کے درمیان تقریباً چھ ہزار افراد کو غیر قانونی سرگرمیوں کے انسداد کے ایکٹ (یو اے پی اے) کے تحت گرفتار کیا گیا تھا اور 132 افراد کو سزا سنائی گئی۔‘
انسانی حقوق کے دفاع سے متعلق اقوام متحدہ کے نمائندہ خصوصی میری لاؤلر نے پیر کو ٹویٹ کی کہ دہشت گردی کے جھوٹے الزامات میں گرفتاری کے نو ماہ بعد ان کی حراست میں موت ہوگئی۔
’انسانی حقوق کے محافظوں کو جیل میں رکھنا ناقابل معافی ہے۔‘
انسانی حقوق پر یورپی یونین کے نمائندہ خصوصی ایمون گلمور نے ٹویٹ کی کہ سوامی کو ’بے بنیاد الزامات کے تحت‘ جیل بھیج دیا گیا تھا۔
سوامی کے وکیل مہر ڈیسائی نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’گرفتاری کے وقت پادری صحت مند نہیں تھے۔ ریاست جھارکھنڈ میں پادری سٹان سوامی نے قبائلی کمیونیٹیز کے ساتھ مل کر کام کیا۔‘
ڈیسائی کا کہنا ہے کہ ’مرکزی اور ریاست کی دونوں حکومتوں کی ایجنسیوں کو ان کی موت کا ذمہ دار ٹھہرانا جانا چاہیے جنہوں نے ان کے کیس کو ہینڈل کیا۔‘
جھارکھنڈ کے وزیراعلیٰ ہیمنٹ سورن نے کہا ہے کہ ’انہوں نے ان کی گرفتاری اور نظر بندی کی سخت مخالفت کی تھی۔‘
’وفاقی حکومت کو اس بے حسی اور ان کو بروقت طبی امداد مہیا نہ کرنے پر جواب دہ ہونا چاہیے جس سے ان کی موت واقع ہوئی۔‘