Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

فلپائن میں لاکھوں پولیس اہلکاروں نے ’موٹاپے کے خلاف‘ جنگ کیسے جیتی؟

پولیس کے جوانوں نے یہ جنگ پیٹ کو کم کر کے نہیں جیتی (فوٹو بشکریہ: فلپائن سٹار)
فلپائن میں پولیس کے دو لاکھ 20 ہزار جوانوں نے ایک ایسی جنگ جیتی ہے جس نے کئی برسوں سے ان کی ترقی کو روک رکھا تھا۔ ان کی یہ جنگ کسی دشمن سے نہیں بلکہ اپنے بڑھے ہوئے پیٹ سے تھی۔
پولیس کے جوانوں نے یہ جنگ موٹاپے کو کم کر کے نہیں بلکہ اس پابندی کے ختم ہونے پر جیتی ہے جس کے تحت اب ترقی پانے کے لیے انہیں موٹاپا کم کرنے کی ضرورت نہیں رہی۔
فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق کئی برسوں سے فلپائنی پولیس کے لیے موٹاپا ایک مسئلہ بنا ہوا تھا۔ سنہ 2019 میں ہونے والے ایک سروے کے مطابق فلپائن میں 35 فیصد پولیس اہلکاروں کا وزن زیادہ تھا اور تقریباً 10 فیصد بہت زیادہ موٹاپے کا شکار تھے۔
کورونا وبا شروع ہوتے ہی سابق پولیس سربراہ ڈبولڈ سیناز نے خود بھی ورزش اور ڈائٹ کو کنٹرول کر کے اپنا وزن کم کیا اور دو لاکھ 20 ہزار اہکاروں کو ابھی اس کام پر لگا دیا۔
نہ صرف یہ بلکہ ان پر یہ بھی واضح کر دیا کہ ہر مہینے اہلکار اپنے ’بی ایم آئی‘ کی رپورٹ جمع کروائیں گے اور جن کا وزن زیادہ ہوگا ان کی ترقی روک دی جائے گی۔
تین برس سے موٹاپا کم کرنے کی ناکام کوشش کے بعد پولیس اہلکاروں کی جان اس وقت چھوٹی جب نئے پولیس سربراہ نے ترقی کے لیے وزن کم کرنے کی شرط یہ کہتے ہوئے ختم کر دی کہ وبا کے دوران لگی پابندیوں کی وجہ سے اہلکاروں کے لیے ورزش کرنا مشکل ہے۔
پولیس چیف جنرل گولیمرو ایلیزر نے کہا کہ ’بہت سے پولیس اہلکاروں کی ترقی رک گئی تھی۔‘
عمر کے حساب سے پولیس کی بی ایم آئی 18.5 سے 27 تک ہونی چاہیے تھی۔ عام طور پر 18.5 سے  24.9 بی ایم آئی رکھنے والے افراد کو ’صحتمند‘ سمجھا جاتا ہے۔
 پولیس اہلکاروں کی طرف سے دائر کی گئی پٹیشن کے مطابق یہ پالیسی ’تباہ کن‘ تھی اور ’موٹاپے کا شکار اہلکاروں سے ایک قسم کا تعصب تھا۔‘

شیئر: