Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ایمیزون پر تجارت میں پاکستانیوں کو کن مشکلات کا سامنا؟

کئی طرح کی کمپنیاں اب لوگوں کو ایمزون پر کاروبار کرنے کے لیے راہنمائی دے رہی ہیں (فوٹو اے ایف پی)
دنیا کی سب سے بڑی ای کامرس منڈی ایمیزون کے فروخت کنندگان ملکوں میں پاکستان کا نام شامل ہونے کے بعد بڑی تعداد میں لوگ اس پورٹل پر تجارت میں دلچسپی لے رہے ہیں۔ لیکن ایمیزون پر آن لائن دکان بنانا عام پاکستانیوں کے لیے ابھی اتنا آسان نہیں۔
کامران طاہر کا تعلق پنجاب کے شہر ملتان سے ہے اور پاکستان کے ایمیزون کی سیلرز لسٹ میں نام آنے کے بعد انہوں  نے اس پلیٹ فارم پر تجارت کرنے کرنے کے لیے تگ و دو شروع کی تو ان کو کئی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑا۔
 انہوں نے بتایا کہ ’سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ آپ کو ایک بین الاقوامی بینک اکاؤنٹ درکار ہے ایسا بینک اکاؤنٹ جس کو ایمیزون قبول کرتا ہے۔ کیونکہ جب بھی آپ کی کوئی پراڈکٹ بکے گی تو ایمیزون آپ کے فراہم کردہ اکاؤنٹ میں ہی آپ کی رقم بھیجے گا۔‘ 

 

’اسی طرح جب آپ اکاؤنٹ کھلوائیں گے تو لازمی طور پر وہ ایک بزنس اکاؤنٹ ہونا چاہیے۔ بزنس اکاؤنٹ کسی بھی بڑے ملک میں اس وقت کھلے گا جب آپ کا وہاں بزنس رجسٹرڈ ہوگا۔ تو میرے لیے اگر اتنا آسان ہوتا کہ میں کسی اور ملک میں ایک بزنس اکاؤنٹ کھلوا سکوں تو یقینا میں اس وقت کاروبار کر رہا ہوتا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اکثر لوگ جنہوں نے کام شروع کر دیا ہے۔ انہوں نے اپنے رشتہ داروں اور دوستوں کے نام اور پتے استعمال کیے ہیں جو بیرون ملک رہتے ہیں اور وہ بھی ان کے منافع میں حصہ دار ہوتے ہیں۔‘
’میری بھی ایک دو لوگوں سے بات ہوئی تو 20 سے 25 فیصد منافع میں حصہ دینے سے آپ ایمیزون سے پاکستان میں کوئی خاص منافع نہیں کما سکتے۔ دیکھتے ہیں کہ پے پال پاکستان میں آ جائے یا کوئی طریقہ نکلے تو پھر اصل فوائد حاصل ہوں گے۔‘  
بعض لوگ ایمیزون پر پیش آنے والی دقت حل ہونے کا انتظار کر رہے ہیں تو کچھ افراد نے تھرڈ پارٹیز کی سروسز لے کر کئی طرح کے حل نکال بھی لیے ہیں جو قدرے مہنگے تو ہیں لیکن ناقابل عمل نہیں ہیں۔  
یہ حل نکالنے کے لیے کئی سروسز کمپنیاں بھی مارکیٹ میں آچکی ہیں۔ ملتان میں ہی ایک سرکاری اور نجی سیکٹر کے تعاون سے ’ایمیزون فل فلمنٹ اینڈ فیسیلیٹیشن سینٹر‘ ہے جو ابھرتے ہوئے کاروباری افراد کو ایمیزون پر اپنا سامان بیچنے کے لیے راہنمائی کرے گا۔
اسی طرح نجی شعبوں میں بھی کئی طرح کی کمپنیاں اب لوگوں کو ایمیزون پر کاروبار کرنے کے لیے راہنمائی کر رہی ہیں۔
لاہور کی ایک کمپنی ورچوئل سافٹانک سلیوشن کے چیف ایگزیکٹو علی شاہ نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’مشکلات تو ہیں لیکن اتنی بھی نہیں ہیں۔ ٹرانسفر وائز جیسی کمپنیاں آن لائن بینکنگ کی سہولیات فراہم کر رہی ہیں۔ ہاں البتہ ان کے کارپوریٹ اکاؤنٹ حاصل کرنے لیے جو کہ ایمیزون پر استعمال ہوتا ہے آپ کو ایک ویریفائڈ ایڈریس کی ضرورت ہوتی ہے۔‘ 

علی شاہ کے مطابق ’کہ اصل مسئلہ جو اس وقت پاکستانیوں کو درپیش ہے وہ سامان کی نقل و حرکت کا ہے۔‘ (فوٹو: روئٹرز)

علی شاہ نے بتایا کہ ’اس وقت کوئی بھی پاکستانی اگر ایمیزون پر مکمل ورکنگ اکاؤنٹ بنانا چاہتا ہے اور اس کا کوئی رشتہ دار یا دوست کسی یورپی ملک یا امریکہ میں نہیں تو ان ملکوں میں ایک عدد کپمنی کی رجسٹریشن اور فنکشنل بینک اکاؤنٹ کے لیے ابتدائی طور پر چار لاکھ روپے پاکستانی روپے خرچہ آتا ہے۔ ایسی بے شمار ویب سائٹس ہیں جو آپ کو ویرفائیڈ ایڈریس فراہم کررہی ہیں اور اس سروس کے بدلے اپنی فیس لے رہی ہیں اور یہ غیر قانونی عمل نہیں ہے۔‘  
تاہم انہوں نے بتایا کہ ’اصل مسئلہ جو اس وقت پاکستانیوں کو درپیش ہے وہ سامان کی نقل و حرکت کا ہے۔ پاکستان سے بیرون ملک سامان بھجوانا مہنگا ہے۔‘
’خطے کے دیگر ممالک کی نسبت پاکستانی جو اشیا بیچ رہے ہیں اس کے منافع میں خاطر خواہ کمی ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ ہے کہ پاکستان پوسٹ ابھی تک فعال نہیں ہے اور اگر متحرک ہوتا بھی ہے تو کوئی پتہ نہیں اس کی سروسز کیسی ہوں گی۔ ابھی تک دو سے تین ایسی کمپنیاں ہیں جوکورئیر کی سروسز دے رہی ہیں اور وہ بہت مہنگی ہیں۔‘ 
ای کامرس ماہرین سمجھتے ہیں کہ پے پال اور بین الاقوامی بینکنگ میں موثر حصہ نہ ملنے تک پاکستانیوں کو پاکستان میں رہ کر خطے کے دیگر شہریوں کی نسبت کم کاروباری مواقع میسر ہوں گے اور پاکستانی اشیا ان عوامل کی وجہ سے مہنگی ہوں گی۔ یقینا اس کے اثرات کاروبار کے آگے بڑھنے پر پڑیں گے۔

شیئر: