Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

افغانستان میں ’ڈی سی بننے کے لیے سی ایس ایس کی ضرورت نہیں؟‘

دفتر میں بیٹھے لوگ کوئی افسر نہیں تھے بلکہ افغان طالبان کے رکن تھے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
اتوار کی رات کو ٹوئٹر پر ایک تصویر وائرل ہوئی جس میں دیکھا جاسکتا تھا کہ تین افراد افغانستان کے کسی دفتر میں بیٹھے ہیں۔ دفتر کی تزین و آرائش دکھ کر گماں ہوتا تھا کہ جیسے یہ کمرہ کسی بڑے افسر کا ہو۔
لیکن اس دفتر میں بیٹھے لوگ کوئی افسر نہیں تھے بلکہ افغان طالبان کے رکن تھے۔
اس تصویر پر درج تھا کہ ’نہ سی ایس ایس (سینٹرل سپرئیر سروس)، نہ پی ایم ایس (پروونشل مینجمنٹ سروس) اور پھر بھی ڈی سی (ڈپٹی کمشنر)۔‘
اس تصویر کو شیئر کرتے ہوئے دی رییو نامی ٹوئٹر اکاؤنٹ نے اسلام آباد کے ڈپٹی کمشنر سے دریافت کیا کہ وہ اس حوالے سے کیا سوچتے ہیں۔

 

اسلام آباد کے ڈپٹی کمشنر حمزہ شفقات اس دفتر کی تصویر پر تبصرہ کرتے ہوئے بولے کہ ’فائلز نہیں ہیں، میرا خیال ہے کہ یہ الیکٹرونک آفس استعمال کررہے ہیں۔‘
 
ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کی ٹویٹ کے بعد مزید لوگ ’الحمداللہ ڈسی‘ لکھ کر اپنی اپنی رائے لکھ رہے ہیں۔
عادی ملک نامی ایک صارف نے لکھا کہ ’چلیں امارت اسلامیہ میں کسی انتظامی پوزیشن کے لیے اپلائی کرتے ہیں۔ وہاں سی ایس ایس کی ضرورت نہیں۔‘

سید سہیل نامی صارف نے لکھا کہ ’ابھی تو چارج سنبھالا ہے کل سے فائلیں بھی آنا شروع ہوجائیں گی۔‘
واضح رہے طالبان نے افغانستان کے دارالحکومت کابل میں واقع صدارتی محل کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد ملک میں جنگ ختم ہونے کا اعلان کردیا ہے۔
برطانوی خبررساں ادارے روئٹرز کے مطابق افغانستان میں امریکہ کی سربراہی میں سرگرم رہنے والی افواج جا چکی ہیں جبکہ مغربی ممالک اپنے شہریوں کو افغانستان سے نکالنے کے لیے تگ و دو کر رہے ہیں۔
اس سے قبل اتوار کو دارالحکومت کابل میں طالبان جنگجوؤں کے داخل ہونے کے بعد افغان صدر اشرف غنی ملک چھوڑ کر چلے گئے تھے جبکہ طالبان نے کہا تھا کہ وہ خونریزی نہیں چاہتے۔ دوسری جانب سینکڑوں افغان ملک سے نکلنے کے لیے بے چینی کے عالم میں کابل ایئرپورٹ پہنچے۔
طالبان کے سیاسی دفتر کے ترجمان محمد نعیم نے کابل میں واقع صدارتی محل کا کنٹرول سنبھالنے کے بعد ملک میں جنگ ختم ہونے کا اعلان کیا ہے۔

شیئر: