Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

مزاحمت کی علامت افغانستان کی وادیٔ پنجشیر میں کیا ہو رہا ہے؟

افغانستان پر طالبان کے کنٹرول کے بعد ان کے خلاف مزاحمت کا عزم کرنے والے علاقوں میں سب سے نمایاں وادیٔ پنجشیر ہے۔
طالبان مخالف ملیشیا کے جنگجوؤں اور سابق افغان سکیورٹی فورسز پر مشتمل گروپوں نے اس وادی میں طالبان کی مزاحمت کرنے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ طالبان نے اپنے جنگجوؤں کو اس علاقے کو گھیرنے کے لیے بھیج دیا ہے۔
افغانستان میں پیدا ہونے والے نئے حالات میں دونوں جانب سے یہی کہا جا رہا ہے کہ وہ بات چیت کے ذریعے تصادم کو روکنا چاہتے ہیں لیکن اس اہم ترین علاقے کی قسمت کے بارے میں ابھی تک کوئی بڑا فیصلہ سامنے نہیں آیا ہے۔

وادیٔ پنجشیر اہم کیوں؟

پنجشیر ہندوکش کے پہاڑوں میں گھری ایک تنگ وادی ہے۔ اس کا جنوبی کنارہ افغانستان کے دارالحکومت کابل سے 80 کلومیٹر (50 میل) شمال میں واقع ہے۔
وادی میں داخلے کے مقامات محدود ہیں اور اس کا مخصوص جغرافیہ فوجی اعتبار سے اسے برتر بناتا ہے۔ اس وادی کے دفاعی مورچے بلندی پر واقع ہیں جہاں سے حملہ آوروں کو مؤثر طریقے سے نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔
افغانستان میں اس وادی کی اہم علامتی حیثیت بھی ہے کیونکہ یہ وہ علاقہ ہے جس نے ایک صدی سے زائد عرصے تک بیرونی حملہ آوروں کے خلاف مزاحمت کی ہے۔
وادیٔ پنجشیر میں زیادہ تر تاجک نسل لوگ آباد ہیں۔ اس علاقے سے ہونے والی مزاحمت نے 1980 اور 1990 کی دہائی کے دوران افغانستان کے سیاسی اور سکیورٹی منظر نامے کو تشکیل دینے میں بہت زیادہ کردار ادا کیا ہے۔

اس وادی کے دفاعی مورچے بلندی پر واقع ہیں جہاں سے حملہ آوروں کو مؤثر طریقے سے نشانہ بنایا جا سکتا ہے (فوٹو: اے ایف پی)

وادیٔ پنجشیر مزاحمت کی علامت کیسے بنی؟

پنجشیر میں سب سے زیادہ قابل احترام شخصیت احمد شاہ مسعود کو سمجھا جاتا ہے جو ایک گوریلا کمانڈر تھے۔ احمد شاہ مسعود کی تصاویر نہ صرف وادی بلکہ افغانستان کے دوسرے کئی شہروں کی دیواروں پر بھی موجود ہیں۔
’پنجشیر کا شیر‘ کے نام سے یاد کیے جانے والے احمد شاہ مسعود 1980 کی دہائی میں سوویت یونین کی فوج کے خلاف لڑنے والے جنگجوؤں کی قیادت کے حوالے سے مقبول ہوئے۔
اس وقت سوویت یونین نے ہزاروں فوجیوں، ہیلی کاپٹروں اور ٹینکوں کے ساتھ احمد شاہ مسعود کے خلاف متعدد مہمات شروع کیں لیکن متعدد خونریز لڑائیوں کے بعد بھی انہیں احمد شاہ مسعود کو شکست دینے میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔

احمد شاہ مسعود کی تصاویر نہ صرف وادی بلکہ افغانستان کے دیگر کئی شہروں کی دیواروں پر بھی موجود ہیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)

1990 کی دہائی کے آخر میں جب طالبان نے افغانستان کے بیشتر حصے کا کنٹرول سنبھال لیا تھا تو احمد شاہ مسعود نے اس دور میں بھی اپنے ماضی کی تاریخ دہرائی۔
پورے افغانستان پر حکمرانی کرنے والے طالبان عسکریت پسند پنجشیر پر قبضہ کرنے میں ناکام رہے اور احمد شاہ مسعود کی افواج نے جنگ میں انہیں سب سے زیادہ نقصان پہنچایا۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق 2001 میں نائن الیون سے دو دن پہلے طالبان کی اتحادی القاعدہ کی جانب سے بھیجے گئے قاتلوں نے احمد شاہ مسعود کو قتل کر دیا تھا۔
قاتل ڈاکیومنٹری فلم بنانے کا ڈرامہ کرتے ہوئے اپنے کیمرے اور بیٹری کے پاؤچ میں دھماکہ خیز مواد رکھ کر ان سے انٹرویو لینے گئے تھے۔

پنجشیر میں مزاحمت کی نئی علامت کون؟

افغانستان پر طالبان کے کنٹرول کے بعد وادی پنجشیر میں طالبان مخالف جنگجوؤں میں مقامی ملیشیا کے ارکان کے ساتھ ساتھ افغان سکیورٹی فورسز کے سابق اہلکار بھی شامل ہیں۔
افغان سکیورٹی فورسز کے اہلکار اپنے ساتھ سازوسامان، گاڑیاں اور ہتھیار بھی لائے ہیں تاکہ نیشنل رزسٹنٹ فرنٹ (این آر ایف) کے ہتھیاروں اور گولہ بارود کے ذخیرے میں اضافہ کیا جا سکے۔

این آر ایف کے لیڈر احمد مسعود ہیں جو کہ پنجشیر کے مشہور کمانڈر احمد شاہ مسعود کے بیٹے ہیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)

این آر ایف کے لیڈر احمد مسعود ہیں جو کہ پنجشیر کے مشہور کمانڈر احمد شاہ مسعود کے بیٹے ہیں۔
احمد مسعود کی قیادت میں سرگرم اس گروپ نے طالبان کے کسی بھی حملے کی مزاحمت کرنے کا عزم کیا ہے۔ امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ سے گفتگو کرتے ہوئے احمد مسعود نے کہا ہے کہ انہیں اسلام پسندوں کا مؤثر طریقے سے مقابلہ کرنے کے لیے غیر ملکی مدد کی ضرورت ہوگی۔
افغانستان کے سابق نائب صدر امراللہ صالح بھی وادیٔ پنجشیر میں ہیں اور احمد مسعود کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے سوشل میڈیا پر پوسٹ کی گئی تصاویر میں دیکھے گئے ہیں۔

مزاحمت کے عزم پر طالبان کا ردعمل کیا ہے؟

طالبان نے محاصرے کے لیے سینکڑوں جنگجوؤں کو پنجشیر کے نواحی علاقوں میں بھیج دیا ہے اور وہ یہاں کے مزاحمت کاروں کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
وادی پنجشیر میں ہر گزرتے دن کے ساتھ کشیدہ ہوتی صورت حال کے باوجود طالبان کے ترجمانوں نے کہا ہے کہ ’وہ صورت حال کو پرامن طریقے سے حل کرنے کو ترجیح دیں گے۔‘

طالبان نے محاصرے کے لیے سینکڑوں جنگجوؤں کو پنجشیر کے نواحی علاقوں میں بھیج دیا ہے (فوٹو: اے ایف پی)

دوسری جانب این آر ایف نے بھی کہا ہے کہ ’وہ طالبان کے ساتھ ایک جامع حکومت کے قیام پر بات چیت کے لیے تیار ہیں‘ اور وادی پنجشیر کی بعض نمایاں شخصیات نے مبینہ طور پر طالبان حکام سے بات بھی کی ہے لیکن ابھی تک کوئی فیصلہ کن پیش رفت نہیں ہو سکی ہے۔
طالبان کا دعویٰ ہے کہ وہ پنجشیر کے ارد گرد کم از کم تین علاقوں پر قابض ہیں جبکہ افغانستان کے سابق صدر امراللہ صالح نے ٹویٹ کی ہے کہ ’پنجشیر میں ایک بحران پیدا ہو رہا ہے کیونکہ خوراک اور ایندھن کی فراہمی منقطع ہو گئی ہے۔‘
اگرچہ این آر ایف نے کسی بھی حملے کا مقابلہ کرنے کے عزم کا اظہار کیا ہے لیکن ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ ان کے پاس طویل محاصرہ برداشت کرنے کے لیے خوراک، سامان اور گولہ بارود موجود ہے یا نہیں۔

شیئر: