Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ترکِ تعلقات کو اک لمحہ چاہیے

آنکھ کا یہ جھپکنا عربی میں ’لحظہ‘ اور ’لمحہ‘ کہلاتا ہے۔ (فوٹو: انسپلیش)
یوں پلک پر جگمگانا دو گھڑی کا عیش ہے
روشنی بن کر مرے اندر ہی اندر پھیل جا
مظفر حنفی کے اس شعر کی خوبصورتی یہ ہے کہ اس میں ’آنسو‘ کا ذکر نہیں مگر ’پلک‘ اور ’جگمگانا‘ کے الفاظ نے بھید کھول دیا ہے کہ یہ تقریب کس کے لیے سجی ہے۔
لفظ ’پلک‘ کو ’پَل‘ سے نسبت ہے، اور ’پَل‘ اُس وقفے کو کہتے ہیں جس میں ’پلک‘ جھپکی جاتی ہے۔ آنکھ کا یہ جھپکنا عربی میں ’لحظہ‘ اور ’لمحہ‘ کہلاتا ہے۔ آگے بڑھنے سے قبل ایک پَل وقفہ کرتے اور ’لمحہ‘ کی رعایت سے فنا نظامی کانپوری کے شعر کا لطف اٹھاتے ہیں:
ترکِ تعلقات کو اک لمحہ چاہیے 
لیکن تمام عمر مجھے سوچنا پڑا
اب اردو کے ’پَل‘ اور عربی کے ’لحظہ و لمحہ‘ کے ساتھ فارسی کے ’چشمِ زدن‘ یعنی ’آنکھ جھپکنا‘ پر غور کریں تو آپ اردو کی وسعت کے قائل ہوجائیں گے جس نے تین مختلف زبانوں کے چار ہم معنی الفاظ  اپنے دامن میں سموئے ہوئے ہیں۔ ممکن ہے بعض افراد کو ’چشم زدن‘ مشکل معلوم ہو سو ایسے تمام حضرات کے لیے ’سردار گینڈا سنگھ مشرقی‘ کا دلکش شعر پیش ہے:
عہدِ شباب چشمِ زدن میں ہوا تمام
جھونکا تھا اک نسیم کا آ کر نکل گیا
اب واپس ’پَل‘ پر آتے ہیں، آنکھ جھپکنے کی اس قلیل مدت کو وقت کی مختصر اکائی قرار دیتے ہوئے منٹ کا ساٹھواں حصہ تسلیم کیا گیا ہے۔ یوں یہ ’پَل‘ انگریزی ’سیکنڈ‘ اور عربی ’ثانیہ‘ کا مترادف بن  گیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ’لحظہ و لمحہ‘ کے پہلو بہ پہلو ’ثانیہ‘ بھی اردو میں رواج پا گیا مگر اردو تک پہنچتے پہنچتے اس کی جنس مؤنث سے مذکر ہوگئی۔ دیکھیں شاعر ’منصور آفاق‘ کیا کہہ رہے ہیں:
سوچ کا ثانیہ دم بھر کو گیا یار کے پاس
پاؤں بے ساختہ لے آئے مجھے کار کے پاس

’پَل‘ انگریزی ’سیکنڈ‘ اور عربی ’ثانیہ‘ کا مترادف بن  گیا ہے۔ (فوٹو: انسپلیش)

اب ’پَل‘ سے ’پلک‘ کی کہانی بھی سن لیں۔ فارسی اور سنسکرت کی رعایت سے اردو میں اسمِ نسبتی بنانے کے لیے اکثر صورتوں میں اسم کے ساتھ ’ک‘ کا اضافہ کیا جاتا ہے۔ مثلاً جیسے عین (آنکھ) سے عینک اور گُنجل (شکن/الجھاؤ) سے گنجلک (پیچیدہ/الجھا ہوا) ہے، ایسے ہی ’پَل‘ سے ’پلک‘ ہے۔
یہ بات یاد رہے کہ ہر وہ اسم جس کے ساتھ ’ک‘ بطور لاحقہ موجود ہو، ضروری نہیں کہ وہ ’اسم نسبتی‘ ہو، اس لیے کہ سنسکرت اور فارسی ہی میں ’ک‘ کو ’اسم مُصغر‘ بنانے کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
مثلاً جیسے سنسکرت میں ’بال‘ کے معنی بچہ اور ’بالک‘ کا مطلب چھوٹا بچہ ہے، ایسے ہی فارسی میں دختر (بیٹی) سے دخترک (چھوٹی بیٹی) اور طائر (پرندہ) سے طائرک (چھوٹا پرندہ) ہے۔ اس ’طائرک‘ کو علامہ اقبال کے اس مصرع میں بھی دیکھا جاسکتا ہے ’طائرک بلند بال دانہ و دام سے گزر۔‘
انسان نامعلوم وقت ہی سے فضاؤں میں اڑنے کا خواہشمند رہا ہے اور اس خواہش کا محرک پرندے ہیں جو جغرافیائی سرحدوں سے ماورا، بنا وثیقہ راہداری (پاسپورٹ) آزادانہ اڑتے پھرتے ہیں۔
طائر (پرند) کی طرح سے ہوا میں اڑنے کی رعایت سے ہوائی جہاز کو عربی میں ’طائرہ‘، ہواباز کو ’طَیّار‘، ہوائی کمپنی کو ’طیران‘ اور ہوائی اڈے کو ’مَطَار‘ کہا گیا۔ اردو کے ’طیارہ‘ کی اصل بھی عربی کا ’طائر‘ ہے۔

ہوائی جہاز کو عربی میں ’طائرہ‘، ہواباز کو ’طَیّار‘، ہوائی کمپنی کو ’طیران‘ اور ہوائی اڈے کو ’مَطَار‘ کہا گیا۔ (فوٹو: انسپلیش)

آپ کو شاید یہ جان کر حیرت ہو کہ اردو لفظ ’تیار‘ کی اصل بھی عربی کا ’طیّار‘ ہے۔ اور اس کے معنی ’اڑنے والا‘ کے ہیں۔ بات یہ کہ بادشاہوں کے درباروں میں شکاری پرندوں کی تربیت پر مامور ’بازدار‘ جب پرندے کو خوب سدھا لیتے تو اُس وقت کہتے کہ یہ ’طیّار‘ ہے۔ بعد میں یہی ’طیار‘ بدل کر ’تیار‘ ہوگیا، اور آمادہ، چوکس اور مستعد وغیرہ کے معنی میں استعمال ہونے لگا۔ 
اس حوالے سے رشید حسن خان کہتے ہیں کہ ’تیار کو طیّار بھی لکھتے ہیں ہم کو ’تیار‘ اختیار کرنا چاہیے، سوائے اس کے کہ یہ لفظ ’اڑنے والا‘ کے معنی میں استعمال ہو۔ اب اس ’تیار‘ کی رعایت سے جون ایلیا کی رنگ میں ’زہراقرار‘ کا شعر ملاحظہ کریں:
تمہارا بیگ بھی تیار کر کے رکھا ہے
اکیلی ہجر کے آزار کیوں اٹھاؤں میں

شیئر:

متعلقہ خبریں