پنجاب میں جھوٹی ایف آئی آر کروانے کا رجحان کیوں بڑھ رہا ہے؟
پنجاب میں جھوٹی ایف آئی آر کروانے کا رجحان کیوں بڑھ رہا ہے؟
منگل 28 ستمبر 2021 6:24
رائے شاہنواز -اردو نیوز، لاہور
پاکستان کے آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبہ پنجاب کی حکومت نے جھوٹے مقدمے درج کروانے والوں کے خلاف قانونی کاروائی کا عندیہ دیا ہے۔
یہ بات اس وقت سامنے آئی جب پنجاب کے وزیر قانون راجہ بشارت کی زیر صدارت اعلیٰ سطحی اجلاس میں آئی پنجاب نے رپورٹ پیش کی کہ گزشتہ برس 26 فیصد مقدمے جعلی درج کیے گئے۔
جس پر وزیر قانون راجہ بشارت نے کہا کہ ’یہ ایک تشویش ناک بات ہے۔ اگر اتنی بڑی تعداد میں جھوٹی ایف آئی آرز درج ہو رہی ہیں تو قانون کو حرکت میں لایا جائے اور جھوٹی ایف آئی آرز کروانے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے۔‘
وزیر قانون کی ہدایت کے بعد ان کے محکمہ نے ایک سمری کابینہ کمیٹی کو ارسال کی ہے جس میں جعلی مقدمات درج کرنے والوں کے خلاف مربوط طریقے سے قانونی کارروائی کرنے کا طریقہ کار وضع کیا گیا ہے۔
ترجمان محکمہ قانون کے مطابق ’چونکہ تعزیرات پاکستان وفاقی معاملہ ہے اس لیے ہم اس میں ردو بدل تو نہیں کر سکتے ہیں۔ مطلب غلط درخواست دینے کی سزا صرف چھ مہینے ہے۔ لیکن اب محکمے نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ عدالت کے روبرو جھوٹی گواہی، حقائق مسخ کرنا وغیرہ جیسی دفعات کے اضافے سے یہ سزائیں تین سال تک بڑھ سکتی ہیں۔ صرف اس کے طریقہ کار کو آسان کرنا ہے۔‘
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق سیکریٹری آفتاب باجوہ سمجھتے ہیں کہ جعلی مقدمات نے انصاف کے عمل کو سست کر رکھا ہے۔
’ہمارے قانون میں صرف ضابطہ فوجداری کی دفعہ 182 ہے جو غلط ایف آئی آر کروانے والے کے خلاف کارروائی کے لیے استعمال ہوتی ہے۔ اس کی سزا بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔ یعنی اگر آپ کے خلاف کسی نے قتل کا جھوٹا مقدمہ درج کروایا ہے اور وہ جھوٹا ثابت بھی ہو گیا ہے تو اس جھوٹا مقدمہ درج کرنے والے کو زیادہ سے زیادہ چھ مہینے سزا ہو سکتی ہے، جبکہ اس کے درج کروائے گئے جھوٹے مقدمے پر سزائے موت ہو سکتی تھی۔‘
انہوں نے بتایا کہ ’سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کافی جاندار فیصلے کیے اور جعلی گواہوں اور ایف آئی آرز کروانے کے والوں کے خلاف سخت کارروائی کا حکم دیا۔ اب صوبے اپنے اپنے طور پر کچھ کر رہے ہیں، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ ایک وفاقی مسئلہ ہے۔ تعزیرات پاکستان میں ترمیم کی جانی چاہیے اور جھوٹی ایف آئی آرز کے لیے علیحدہ سے قانون اور سزائیں متعین کی جانی چاہیں اس سے ملک سے آدھے مقدموں کا بوجھ ختم ہو جائے گا۔‘
لوگ جھوٹی ایف آئی آر کیوں کرواتے ہیں؟
سابق سیشن جج عابد قریشی کا خیال ہے کہ یہ ایک سادہ سوال نہیں ہے ’جھوٹی ایف آئی آر کی کئی اقسام ہو سکتی ہیں۔ ابھی جو سپریم کورٹ کے فیصلے پچھلے کچھ عرصہ میں آئے ہیں ان میں تو ان ایف آئی آرز کی سکروٹنی کی گئی ہے۔ جن میں جان بوجھ کر اپنے مخالفین کے زیادہ لوگ ملوث کیے گئے تھے۔ ہمارے لوگوں میں رجحان ہے کہ جب ان کا کوئی نقصان ہوتا ہے تو وہ اپنے مخالفین کے بے قصور لوگوں کو بھی اس میں شامل کر لیتے ہیں۔ جس سے وہ اپنا کیس خراب کر لیتے ہیں۔ قانون کے نزدیک بے قصور بے قصور ہی ہوتا ہے چاہے وہ آپ کا جتنا بڑا دشمن ہو۔‘
انہوں نے کہا کہ ’میں اپنے تجربے سے آپ کو بتا سکتا ہوں کہ اب چونکہ ایف آئی آر کروانا پہلے کی نسبت آسان ہو گیا ہے۔ اور اس میں میڈیا اور سوشل میڈیا کا کئی سالوں کا پریشر ہے۔ سب سے پہلا سوال ہی یہی ہوتا ہے کہ مقدمہ درج نہیں ہوا۔ جس سے پولیس نے اس عمل کو آسان کر دیا ہے۔ پہلے یہ حد سے زیادہ مشکل تھا جب ایک ایف آر درج کروانے کے لیے لوگوں کی ایڑیاں گھس جاتی تھیں اب یہ اتنا ہی آسان ہے۔ اس لیے ایک بڑی تعداد میں لوگ اس کا ناجائز فائدہ اٹھا رہے ہیں۔‘