انڈین وزیراعظم نریندر مودی ابھی اپنے امریکہ کے دورے سے واپس لوٹے ہی تھے کہ انڈین سوشل میڈیا اور واٹس ایپ گروپس میں امریکی جریدے ’دا نیویارک ٹائمز‘ کا ایک آرٹیکل شیئر ہونا شروع ہوگیا۔
اس آرٹیکل کے مطابق امریکہ کے معتبر ترین سمجھے جانے والے جریدے نے وزیراعظم مودی کو دنیا کے لیے ’آخری‘ اور ’بہترین‘ امید قرار دیا تھا۔
"Last,Best Hope Of Earth"
Shri @narendramodi Ji
"Powerful Leader's Comes from Powerful People!""Man of world!" #NarendraModi Ji pic.twitter.com/kgEKtuxXth
— JagathKrishna Yadav (@JagathKrishnaIN) September 27, 2021
ابھی انڈین حکمران جماعت کے لوگ اس آرٹیکل کی خوشی منا ہی رہے تھے کہ ’دا نیویارک ٹائمز‘ نے رنگ میں بھنگ ڈال دیا۔
بدھ کے روز ’دا نیویارک ٹائمز‘ کے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے یہ کہا گیا کہ سوشل میڈیا پر گردش کرنے والا اخبار کا یہ صفحہ دراصل جعلی ہے۔
’یہ ایک مکمل طور پر من گھڑت تصویر ہے، اور یہ گردش کرنے والی ان بہت ساری تصاویر میں سے ایک ہے جن میں وزیراعظم نریندر مودی ہیں۔‘
سوشل میڈیا پر صارفین اس جھوٹی خبر کو وائرل کرنے کا ذمہ دار بھارتیہ جنتا پارٹی کے سوشل میڈیا سیل کو قرار دے رہے ہیں۔
انڈین لکھاری سنجکتا باسو نے اپنی ایک ٹوئیٹ میں کہا کہ ’بے جے پی کے آئی ٹی سیل کی جانب سے جھوٹی خبر پھیلانے میں کچھ نیا نہیں ہے لیکن اس بار یہ یہ اتنا آگے چلے گئے کہ دا نیویارک ٹائمز کو عوامی طور پر اس کی تردید کرنا پڑی۔‘
’اب یہ ایک بین القوامی خبر بن چکی ہے۔‘
A fake @nytimes front page with Modi's photo and headline "last and best hope of mankind" was massively circulated. Fake news by BJP IT cell is nothing new but this time it went so far and wide that @NYTimesPR had to publicly call it out. Now it has become an international news.
— Sanjukta Basu (@sanjukta) September 29, 2021
امریکی اخبار کے جعلی صفحے پر انگریزی میں جو ستمبر کی سپیلنگ کھی گئی تھی وہ بھی غلط تھی۔
راگھو چوپڑا نامی ایک صارف نے اپنی ایک ٹوئیٹ میں طنزاً لکھا کہ ’نیویارک ٹائمز کے نریندر مودی کو دنیا کی آخری امید نہ کہنے پر جھٹکا لگا اور ہاں انہیں ستمبر کی سپیلنگ بھی آتی ہے۔‘
big shocker NYT didn't call Narendra Modi the last best hope of earth, and also, they know how to spell September https://t.co/XgDmeNphPM
— Raghav Chopra (@RaghavChopra_) September 29, 2021
انڈین پارلیمنٹ کے رکن ڈاکٹر سانتانو سین کو بھی اس فیک نیوز کے پیچھے وزیراعظم مودی اور ان کی جماعت نظر آئی۔
اپنی ایک ٹوئیٹ میں انہوں نے لکھا کہ ’وزیراعظم کو کسی نے یہ حق دیا کہ وہ بین الاقوامی سطح پر انڈیا کا امیج خراب کریں؟‘
What can be more shameful?
Who has given the right to #PM(Publicity Master) to bring down the image of #India in International level?
Fake front page news on daily @NewYorkTimes_es portraying @narendramodi as "LAST & BEST HOPE ON EARTH"& " WORLD'S MOST POWERFUL & LOVED LEADER "!! pic.twitter.com/rgUm1Vp5ET
— DR SANTANU SEN (@SantanuSenMP) September 28, 2021
انڈین صحافی رانا ایوب نے بھی وزیراعظم مودی پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ ’کچھ اور نہ صحیح، کم سے کم ہمارے سیاستدانوں کی فوٹو شاپ صلاحیتیں ہی بین القوامی ہیڈلائنز بن رہی ہیں۔
What an embarassment !! The New York Times had to issue a clarification that a full page image and headline glorifying Narendra Modi on their front page ,shared by many BJP leaders is fabricated. If nothing, the photo shop skills of our politicians is making international news https://t.co/qBUMh61HQq