پاناما کو ’پنڈورا پیپرز‘ سے ملک کی ساکھ کے ’داغ دار‘ ہونے کا خوف
اتوار 3 اکتوبر 2021 16:27
پاناما کی حکومت نے آئی سی آئی جے کو بھیجے گئے خط میں کہا کہ ’(اس سے) ناقابل تلافی نقصان ہو سکتا ہے۔‘ (فوٹو: ٹوئٹر)
پاناما کو عالمی ٹیکس ہیونز میں مالی رازداری سے متعلق ایک نئے انکشاف کی اشاعت سے خوف لاحق ہے کہ یہ ایک بار پھر اس کی ساکھ کو داغ دار کر سکتا ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق پاناما کی حکومت نے میڈیا کو ایک خط میں بتایا ہے کہ اتوار کو سامنے آنے والے ’پنڈورا پیپرز‘ ماضی قریب کے ’پاناما پیپرز‘ کی طرح ملک کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچا سکتے ہیں۔
پاناما کی حکومت نے ایک قانونی فرم کے ذریعے بین الاقوامی کنسورشیم آف انویسٹی گیٹو جرنلسٹس (آئی سی آئی جے) کو بھیجے گئے خط میں کہا کہ ’(اس سے) ناقابل تلافی نقصان ہو سکتا ہے۔‘
خط میں خبردار کیا گیا ہے کہ ایسی ’کوئی بھی اشاعت‘ ملک کے ممکنہ ٹیکس ہیون ہونے کے ’غلط تصور‘ کو تقویت دیتی ہے جو ’پاناما اور اس کے شہریوں کے لیے تباہ کن نتائج پیدا کرے گی۔‘
آئی سی آئی جے نے ٹویٹ کیا کہ وہ اتوار کو پاکسانی وقت کے مطابق ساڑھے نو بجے پنڈروا پیپرز جاری کرے گا جو کہ ’دنیا بھر سے ایک کروڑ 19 لاکھ دستاویزات کے لیک ہونے کی بنیاد پر ’مالی رازداری کا اب تک کا سب سے بڑا انکشاف‘ ہے۔
آئی سی آئی جے نے کہا کہ ’پنڈورا پیپرز‘ کی تحقیقات 117 ممالک میں 600 سے زائد رپورٹرز کے کام کا نتیجہ ہیں۔
پاناما کی حکومت کی جانب سے اس خط میں کچھ ایسی اصلاحات کا بھی حوالہ دیا گیا ہے جو انہوں نے حالیہ برسوں میں کی ہیں لیکن اس کے باوجود یہ یورپی یونین کی ٹیکس ہیونز کی فہرست میں شامل ہے۔
خط میں اس بات کی نشاندہی بھی کی گئی ہے کہ 2016 کے بعد سے تین لاکھ 95 ہزار سے زائد کمپنیوں اور فاؤنڈیشنوں کی رجسٹریشن معطل ہو چکی ہے جو اس وقت وہاں موجود کمپنیوں کے نصف کے قریب ہیں۔
حکومت کو خدشہ ہے کہ پاناما ایک بار پھر عالمی ٹیکس ہیون سکینڈل کا مرکز بن جائے گا جیسا کہ 2016 میں آئی سی آئی جے کے ’پاناما پیپرز‘ کے انکشاف کے بعد ہوا تھا۔
پاناما کی قانونی فرم موسیک فونسیکا سے جڑے انکشافات نے پاناما کی بین الاقوامی شہرت کو نقصان پہنچایا حالانکہ اس سکینڈل میں شامل زیادہ تر کمپنیاں بیرون ملک تھیں۔
اس کے بعد سے پاناما کی حکومت نے مختلف قانونی اصلاحات کی ہیں تاکہ بینکنگ کنٹرول کو مضبوط کیا جا سکے اور ٹیکس چوری کی سزا قید کی صورت میں دی جا سکے۔
حکومت نے اپنے خط میں کہا کہ 2016 کا پاناما سے آج کا پاناما سے مختلف ہے۔