Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سعودی عرب میں استعمال شدہ سامان خریدنے کا رجحان بڑھنے لگا

کفایت شعاری کا خیال سوشل میڈیا کے ذریعے تیزی سے پھیل رہا ہے۔( فائل فوٹو اے ایف پی)
ماحول دوست سعودی خریدار  پیسے اور ماحولیات کو بچانے کے لیے استعمال شدہ سامان بیچنے والے سٹورز کا رخ کر رہے ہیں۔
عرب نیوز کے مطابق اگرچہ یہ چیز یورپ میں عام ہے, لیکن مملکت میں سستی خریداری نسبتاً نئی ہے۔ تاہم ناپسندیدہ سیکنڈ ہینڈ کپڑے اور گھریلو اشیا کو ان کی اصل قیمت کے ایک حصے کے لیے دوبارہ فروخت کرنے کا تصور ملک میں تیزی سے بڑھ رہا ہے۔
ایسی دکانیں 1960 اور خاص طور پر 1980 کی دہائی کے دوران موجود تھیں اور عام طور پر خیراتی اداروں اور غیر منافع بخش تنظیموں کے لیے چندہ جیسے کے کپڑے،فرنیچر، کھلونے، گھر کی سجاوٹ، کتابیں اور بجلی کا سامان قبول کرکے پیسے اکٹھے کرتی تھیں۔
سعودی عرب میں کفایت شعاری کا خیال حال ہی میں سوشل میڈیا  کے ذریعے تیزی سے آن لائن پھیل رہا ہے۔
فارس المانع نے اپنی ورچوئل مونوکروم تھرفٹ شاپ سوشل نیٹ ورکس پر لوگوں کی تعداد کو دیکھ کر قائم کی۔
22 سالہ نوجوان نے عرب نیوز کو بتایا کہ ’میں ایک عرصے سے کفایت شعاری اور استعمال شدہ سامان بیچنے والی دکانوں کے خیال میں دلچسپی رکھتا ہوں، کیونکہ اس سے ہر ایک کو موقع ملتا ہے کہ وہ ایسی اشیا خریدے جو زیادہ سستی ہو۔‘
ہم بحیثیت کمیونٹی سیکنڈ ہینڈ آئٹمز کے مالک ہونا یا انہیں خریدنا ممنوع سمجھتے ہیں چاہے وہ کپڑے ہوں یا گھریلو اشیا۔ میں نے اسے اس امید کے ساتھ شروع کیا کہ شاید تھوڑا تھوڑا کر کے میں اس ذہنیت کو تبدیل کروں۔ یہ ایک بہت پرانا تصور ہے جس کی کوئی حقیقی منطق نہیں ہے۔ آپ باہر کیوں جائیں گے اور 600 ریال کی ہوڈی کیوں خریدیں گے جب آپ تقریباً وہی ہوڈی 100 ریال میں بہترین حالت میں خرید سکتے ہیں۔

کفایت شعاری کا عالمی دن ہر سال 30 اکتوبر کو منایا جاتا ہے (فوٹو ٹوئٹر)

کفایت شعاری کا عالمی دن ہر سال 30 اکتوبر کو منایا جاتا ہے۔ یہ دن افراد اور قوموں کے لیے بچت اور مالی تحفظ کو فروغ دیتا ہے۔
کفایت شعاری کے بہت سے فوائد ہیں جیسے کیش لیس سوسائٹی کو سپورٹ کرنا، کپڑوں کو ری سائیکلنگ اور اپ سائکلنگ کرنا، پرانی کتابوں کو دوبارہ تیار کرنا، پڑھنے کی ثقافت کو فروغ دینا اور فضلہ کو کم کرنا۔
فارس المانع کی دکان میں کپڑے اور کتابیں جیسے ونائل ریکارڈز، پرانے ویڈیو گیمز اور جمع کرنے کے قابل موبائل فون موجود ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’جب میں نے یہ کام شروع کیا تو مجھے بہت سی اشیا پر تحقیق کرنی پڑی تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ میں ایسی قیمت پیش کر رہا ہوں جو کہ اصل قیمت سے 50 فیصد کم ہے۔‘
’میں اب بھی کچھ تحقیق کرتا ہوں، لیکن میں کہوں گا کہ میں 80 فیصد جانتا ہوں کہ اشیا کی قیمت کتنی ہے تاکہ خریدار خوش ہوں جو عام طور پر اصل قیمت سے 50 سے 75 فیصد سستی ہوتی ہیں۔‘
فارس المانع نے ستمبر میں سیکنڈ ہینڈ کتابوں کے لیے مختص ایک الگ سٹور قائم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

شیئر: