Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دل سے دلی: بول کہ لب آزاد ہیں تیرے

حد تو یہ ہے کہ آریان خان کو گرفتار کرنے کے بعد ان کا بلڈ ٹیسٹ بھی نہیں کیا گیا (فوٹو اے ایف پی)
تو آریان خان آخرکار اپنے گھر لوٹ ہی آئے، ان کی گرفتاری اور ضمانت پر رہائی سے کچھ باتیں ثابت ہوتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ آپ چاہے شاہ رخ خان ہی کیوں نہ ہوں، اگر آپ کو کوئی سرکاری افسر سبق سکھانا چاہتا ہے یا آپ کے ذریعے کسی کو کوئی پیغام دینا چاہتا ہے، تو بس یہ سمجھ لیجیے کہ خاموشی سے تماشا دیکھنے کےعلاوہ ایسا زیادہ کچھ ہے نہیں جو آپ کر پائیں گے۔
لیکن آپ بول تو سکتے ہیں۔
انڈیا میں قانون کے بڑے بڑے ماہرین اور تجزیہ نگار مانتے ہیں کہ اول تو آریان خان کو گرفتار ہی نہیں کیا جانا چاہیے تھا، اور اگر کر بھی لیا گیا تھا تو ذیلی عدالت میں ہی ضمانت مل جانی چاہیے تھی۔ اس کی دو تین وجوہات ہیں۔ ایک تو ان کی عمر، وہ صرف 23 سال کے ہیں، ان کا ماضی کا کلین ریکارڈ، اور شواہد کی کمی۔ نہ تو ان کے پاس سے ڈرگز برآمد ہوئے اور نہ ہی اس بات کا کوئی ثبوت ہے کہ انہوں نے منشیات کا استعمال کیا تھا۔
حد تو یہ ہے کہ انہیں گرفتار کرنے کے بعد ان کا بلڈ ٹیسٹ بھی نہیں کیا گیا۔
اس کے باوجود آریان نے 26 دن جیل میں گزارے اور ضمانت کی درخواست پر بحث کے لیے انڈیا کے سابق اٹارنی جنرل اور سپریم کورٹ کے سینیئر وکیل مکل روہتگی کو میدان میں اتارا گیا تو رہائی ملی۔
آریان کو گرفتار کرنے والے افسر کو اب خود سنگین الزامات کا سامنا ہے اور ان کی تفتیش جاری ہے، لیکن انہیں ابھی تک اس کیس سے ہٹایا نہیں گیا ہے۔
بہت سے تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ آریان خان کی گرفتاری بالی وڈ کے ستاروں کے لیے ایک پیغام تھی۔ لیکن پیغام کیا تھا یہ اپنی سمجھ سے باہر ہے۔
اگر پیغام یہ تھا کہ آپ خاموش رہیں اور اپنی چمک دمک کی دنیا میں آنکھ موند کر بیٹھے رہیں، باقی دنیا میں جو ہو رہا ہے اس کے بارے میں بات نہ کریں تو یہ تو بالی وڈ کے ستارے کب سے کرتے آ رہے ہیں۔ بڑی سے بڑی بات ہو جائے، وہ خاموش ہی رہتے ہیں، کبھی منہ نہیں کھولتے جیسے انہیں خبر ہی نہ ہو کہ ان کی اپنی چہار دیواری کے باہر بھی ایک دنیا ہے جہاں ایسا بہت کچھ ہوتا ہے جس میں ان کی مداخلت سے اثر پڑ سکتا ہے۔
لیکن شاہ رخ خان جیسے سپر سٹار کا ساتھ دینے کے لیے ان کا کوئی ساتھی آگے نہیں آیا۔
اس لیے اگر اس پورے افسوس ناک قضیے سے کوئی سبق ملتا ہے تو وہ یہ کہ خاموش نہ بیٹھیں۔ اگر آپ کو کچھ ایسا نظر آئے جس سے آپ اتفاق نہیں کرتے تو سیلف سنسرشپ سے کام نہ لیں۔ بالی وڈ کے بہت سے ستارے ہالی وڈ کے سٹارز کی نقل کرتے ہیں، لیکن اس نقل کو ان کی اداکاری کے انداز اور ان کی فلموں کی کہانیوں تک ہی محدود رکھتے ہیں، ان کی صاف گوئی سے سبق نہیں لیتے۔
ہالی وڈ کے سٹارز سیاست سے دامن بچا کر نہیں نکلتے۔ اگر وہ کسی سیاسی نظریے یا فیصلے سے اتفاق نہیں کرتے تو کھل کر اس کی مخالفت کرتے ہیں، اس بات سے نہیں ڈرتے کہ کہیں ان کے خلاف انتقامی کارروائی نہ کی جائے۔

محمد شامی کے معاملے پر کوہلی نے بیان دینے میں ذرا وقت لگایا لیکن جب بولے تو پھر بے خوف بولے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

بالکل ویسے ہی جیسے انڈیا کے کرکٹ کیپٹن وراٹ کوہلی نے کیا ہے۔ پاکستان کے ہاتھوں شکست کے بعد جب سوشل میڈیا پر ٹیم کے فاسٹ بالر محمد شامی کو نشانہ بنایا گیا، انہیں غدار اور نہ جانے کیا کیا کہا گیا، تو ہم جیسے بہت سے لوگ یہ سوچ رہے تھے کہ ٹیم کی جانب سے کوئی بیان کیوں جاری نہیں کیا گیا؟ کیا ٹیم کو یہ نہیں کہنا چاہیے تھا کہ کسی ایک کھلاڑی کو اس کے مذہب کی وجہ سے نشانہ بنایا جانا قابل قبول نہیں ہے اور یہ کہ جیسے شامی نہیں چلے ویسے ہی کے ایل راہل اور روہت شرما جیسے تجربہ کار بلے باز بھی نہیں چلے۔
کوہلی نے بیان دینے میں ذرا وقت لگایا، لیکن جب بولے تو پھر بے خوف بولے۔ اور انہوں نے وہ سب کہا جو ایک کپتان کو اپنے کھلاڑی کے دفاع میں کہنا چاہیے تھا۔ یہ تک کہ جو لوگ اس طرح کی گھٹیا باتیں کر رہے ہیں ان پر وہ ایک منٹ بھی ضائع نہیں کرنا چاہتے۔
کوہلی کے اس غیرمعمولی بیان پر بہت سے اداریے بھی لکھے گئے ہیں اور بہت سے ستائشی مضامین بھی، لیکن سوشل میڈیا پر ایک حلقہ اب انہیں بھی نشانہ بنا رہا ہے۔

وراٹ کوہلی نے ہمت دکھائی ہے، اس بات کی ہمت کہ وہ غلط کو غلط کہنے سے گریز نہیں کریں گے (فوٹو اے ایف پی)

لیکن یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ جب آپ کسی بڑے عہدے پر ہوں، اور لوگ آپ کی طرف رہنمائی کے لیے دیکھتے ہوں، تو خاموش رہنا آپشن نہیں ہوتا۔ آپ کی خاموشی سے بھی ایک پیغام جاتا ہے۔ لوگ ہر بات باریکی سے نوٹ کرتے ہیں، آپ کب بولے اور کب خاموش رہے۔ دونوں ہی میں ایک پیغام مضمر ہوتا ہے۔ قیادت کرنی ہے تو بھیڑ کے آگے چلنا ہو گا، پیچھے نہیں۔
کچھ لوگ ایسے ہیں جن سے آپ خاموشی کی توقع کرتے ہیں۔ وہ بولیں تو حیرت ہوتی ہے۔ اکثر یہ معلوم ہوتا ہےکہ وہ کب بولیں گے اور کب خاموش رہیں گے۔
وراٹ کوہلی نے ہمت دکھائی ہے، اس بات کی ہمت کہ وہ غلط کو غلط کہنے سے گریز نہیں کریں گے۔ اسی طرح جیسے نیرج چوپڑا نے دکھائی تھی جب اولمپکس میں جیولن کے مقابلے کے بعد پاکستان کے ارشد ندیم کو نشانہ بنایا جارہا تھا۔ جب بڑے سٹار منہ کھولتے ہیں تو بہت سے لوگوں کی زبان بند ہوتی ہے۔
اس لیے بول کہ لب آزاد ہیں تیرے

شیئر:

متعلقہ خبریں