یادوں کی شال اوڑھ کے آوارہ گردیاں
کاٹی ہیں ہم نے یوں بھی دسمبر کی سردیاں
مزید پڑھیں
-
کیلنڈر کہانی: جب لوگوں کی زندگی سے دس دن غائب ہو گئےNode ID: 527901
-
سارنگی کی کہانی اور سِتار کا قصہNode ID: 576031
-
برپا ہے حشر و نشر جو رفتار یار سےNode ID: 614311
شاعر نے فقط سردیاں گزاری ہیں، ناکام عُشّاق تو یادوں کے سہارے زندگی گزار دیتے ہیں، اور بصد شکر کہتے ہیں:
خدا کا شکر سہارے بغیر بیت گئی
ہماری عمر تمہارے بغیر بیت گئی
خیر ہماری دلچسپی نہ شاعر میں ہے نہ سردیوں میں، ہماری توجہ ’شال‘ پر ہے، جو ایک مشہور ’بالا پوش‘ یا اوڑھنی ہے۔ لغت کے مطابق ’شال‘ وہ چادر ہے جو كشمیر میں دُنبے كے بالوں سے بنائی جاتی ہے، اسی لیے ’جامۂ پشمین‘ کی ایک قسم میں شمار ہوتی ہے۔ ’پشمین‘ کو پشمینہ/ پشمینا سے نسبت ہے، جو بھیڑ بکری اور دنبے نیز اونٹ کی گردن کے روئیں سے بنا ہوا ایک بہت نفیس قیمتی اور گرم کپڑا ہوتا ہے۔
’شال‘ کے لغوی معنی کے بعد اب لفظی معنی کی بات کرتے ہیں، مگر اس سے پہلے دو باتیں سمجھنا ضروری ہیں، اول یہ کہ زمانہ قدیم ہی سے جانوروں کے کھال اور بال بطور لباس استعمال ہوتے آئے ہیں۔ آج بھی جوتوں سے جیکٹ تک چمڑے کی ان گنت مصنوعات کا استعمال عام ہے۔ دوسری بات یہ پیش نظر رہے کہ حرف ’کاف‘ اکثر صورتوں میں ’چ‘ سے بدل جاتا ہے۔
مذکورہ وضاحت کے ساتھ لفظ ’شال‘ اور اس کے استعمال کا جائزہ لیں تو اس ’شال‘ کو ’چھال‘ سے اور ’چھال‘ کو ’کھال‘ سے قریب پائیں گے اور سمجھنے میں دیر نہیں لگے گی کہ اصلاً ’شال، چھال اور کھال‘ ایک ہی لفظ کی مختلف صورتیں ہیں، اسی لیے لغت نویسوں نے ’چھال‘ کو ’کھال‘ کا ہم معنی بتایا ہے۔ تاہم ان کے عمومی اطلاق و استعمال میں فرق ہے۔
اس وضاحت کے ساتھ سمجھا جا سکتا ہے کہ جانوروں کے نرم بالوں سے بنی ’شال‘ کی اولین صورت ’کھال‘ تھی، جسے ’چھال‘ پکارا گیا، پھر تمدنی ترقی کے ساتھ اگر لفظ ’چھال‘ مخصوص معنی کے ساتھ ’شال‘ ہوا تو ساتھ ہی ساتھ شال کی تیاری میں ’کھال‘ کی جگہ ’بال‘ نے لے لی۔
اب غور کریں تو ’چھال‘ بھی درخت کی ’کھال‘ ہے، جو اسے موسمی اثرات سے بچاتی ہے۔ پھر اسی ’چھال‘ سے چھلکا اور چِھلنا اور چھیلنا کے الفاظ بھی تعلق رکھتے ہیں۔ اب اس بات کو ’پنڈت دیا شنکر نسیم لکھنوی‘ کی مشہور مثنوی ’گلزارِ نسیم‘ کے ایک شعر سے سمجھیں:
ٹوپی جو بنائے، چھیل کر چھال
دکھلائی نہ دے نظر کی تمثال
خیر ذکر تھا ’شال'‘ کا، جو کھال تک پہنچ گیا، اب اسی ’شال‘ کی ہمشیرہ ’دوشالہ‘ کا بیان سنیں۔ ’دوشالہ‘ نسبتاً قیمتی ہوتی ہے۔ اس کی ایک قسم ’دُوشالہ نَخُودی‘ ہے۔ یہ ایک اعلیٰ قسم کی دوہری شال ہوتی تھی جو خلعت کے ساتھ دی جاتی تھی، اس پر چنے کے برابر سونے چاندی کے تار کی بُوٹیاں ہوتی ہیں۔ اسی لیے یہ ’دوشالہ‘ دولت و ثروت کا استعارہ بن گئی۔ اس بات کو ’آغا اکبر آبادی‘ کے شعر سے سمجھیں:
دوشالہ شالِ کشمیری امیروں کو مبارک ہو
گلیم کہنہ میں جاڑا فقیروں کا بسر ہوگا
شعر بالا میں شاعر کشمیر شال و دوشالہ کے مقابلے میں ’گِلِیم‘ لایا ہے۔ ’گِلیم‘ فارسی لفظ ہے، یہ بھیڑ بکریوں کے بالوں اور اون سے بُنی عام سی گرم چادر ہوتی ہے۔ اردو میں شال و گلیم میں اعلیٰ و ادنیٰ کا فرق روا رکھا گیا ہے، مگر فارسی میں گاہے ’شال و گلیم‘ باہم مترادف بن جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ’بہار عجم‘ کے مؤلف نے شال کو ’مطلق لباس فقرا‘ یعنی محض غریبوں کا لباس قرار دیا ہے، تو ’صحاح الفرس‘ کا مؤلف ’شال‘ کے ضمن لکھتا ہے کہ ’گلیمی باشد کوچک که از پشم و موی بافند‘ یعنی شال ایک چھوٹی گلیم کو کہتے ہیں جو اون اور بالوں سے تیار ہوتی ہے۔
یہی وجہ ہے کہ فارسی میں درویش کو ’گلیم پوش‘ ہی کی طرح ’شال پوش‘ بھی کہا جاتا ہے۔ اس پہلے کہ آگے بڑھیں اور ’دَلَق و کمبل‘ کا ذکر کریں زیر بحث الفاظ کی تفہیم کے لیے علامہ اقبالؒ کا خوبصورت شعر ملاحظہ کریں:
یہی شیخِ حرم ہے جو چُرا کر بیچ کھاتا ہے
گلیمِ بُوذرؓ و دَلقِ اَویسؓ و چادرِ زہراؓ