Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان میں ہتکِ عزت کے مقدمات منطقی انجام تک کیوں نہیں پہنچتے؟

اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کا وزیراعظم عمران خان کے خلاف ہتک عزت کا مقدمہ بھی عدالت میں طویل عرصے سے زیرِ سماعت ہے۔ فائل فوٹو: لا اینڈ جسٹس کمپشن
پاکستان میں جب کبھی کوئی بڑی شخصیت کسی کے خلاف ہتک عزت کا مقدمہ دائر کرتی ہے تو یہ بحث شروع ہو جاتی ہے کہ ان کیسز کے فیصلے کیوں نہیں ہوتے اور برطانیہ اور امریکہ کی مثالیں دے کر پوچھا جاتا ہے کہ وہاں عدالتیں ایسے مقدمات میں فوری انصاف کیسے فراہم کرتی ہیں۔
حالیہ عرصے میں ایک بڑے مقدمے میں برطانیہ میں ہالی وڈ اداکار جونی ڈیپ اخبار ’دی سن‘ کے خلاف ہتک عزت کا مقدمہ ہار گئے تھے۔
جریدے ’دی سن‘ نے جونی ڈیپ پر اہلیہ کو تشدد کا نشانہ بنانے کا الزام لگاتے ہوئے اُنہیں وائف بیٹر (بیوی پر تشدد کرنے والا شخص) قرار دیا تھا۔ جس پر اداکار نے جریدے کے خلاف لندن ہائی کورٹ میں ہتکِ عزت کا دعویٰ دائر کیا تھا۔
برطانیہ کی ہی عدالتوں میں رواں برس تین پاکستانیوں کے ہتک عزت کے مقدمات چلے اور ان پر فیصلے آئے۔
دو مقدمات میں پاکستانی نیوز چینل کو معافی مانگنا پڑی جبکہ ایک مقدمے میں وزیراعظم عمران خان کی سابق اہلیہ ریحام خان نے پاکستانی نژاد برطانوی شہری اور وزیراعظم عمران خان کے سابق معاون خصوصی ذوالفقار بخاری (زلفی بخاری) سے غیر مشروط معافی مانگی۔
ان مقدمات کے فیصلے پاکستان میں کئی دن زیر بحث رہے کیونکہ اس میں ٹی وی چینل اے آر وائے کا مواد برطانیہ میں نشر کرنے والے نیو وژن نے مسلم لیگ ن کے سینیئر رہنما اسحاق ڈار سے تحریری معافی مانگی تھی۔
رواں ہفتے جسٹس ریٹائرڈ وجیہہ الدین احمد کی جانب سے وزیراعظم عمران خان کی ذاتی رہائش گاہ بنی گالہ کے اخراجات کے حوالے سے بیان پر حکومت نے ان کے خلاف ہتک عزت کا مقدمہ دائر کرنے کا اعلان کیا جبکہ اسی دوران نو برس پرانے ہتک عزت کے ایک مقدمے میں وزیراعظم عمران خان بیان ریکارڈ کرنے کے لیے ای کورٹ کے ذریعے اسلام آباد کی عدالت میں پیش ہوئے۔

جسٹس ریٹائرڈ وجیہہ الدین احمد کے الزامات کے بعد پاکستان میں ہتکِ عزت کا قانون ایک بار پھر زیرِ بحث ہے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

یہ مقدمہ 2012 میں عمران خان نے مسلم لیگ ن کے رہنما خواجہ آصف کے خلاف دائر کیا تھا۔ خواجہ آصف نے عمران خان پر شوکت خانم ٹرسٹ کے فنڈز کے غلط استعمال کا الزام لگایا تھا۔
اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کا وزیراعظم عمران خان کے خلاف ہتک عزت کا مقدمہ بھی عدالت میں طویل عرصے سے زیرِ سماعت ہے۔
گلوکارہ میشا شفیع کے گلوکار علی ظفر پر ہراساں کرنے کے الزام اور علی ظفر کی جانب سے میشا شفیع کے خلاف ہتک عزت کے مقدمے کا بھی ٹرائل جاری ہے اور پاکستانی میڈیا پر ہائی لائٹ ہوتا رہتا ہے۔
اردو نیوز نے پاکستان میں ہتک عزت کے قانون اور عدالتوں میں اس حوالے سے دائر مقدمات کے فیصلوں میں تاخیر کے حوالے سے سینیئر وکلا اور قانون دانوں سے بات کر کے وجوہات جاننے کی کوشش کی ہے۔
سپریم کورٹ میں پریکٹس کرنے والے قانون دان فیصل چوہدری ایڈووکیٹ کے مطابق پاکستان میں ہتک عزت کے سول اور فوجداری دونوں قانون موجود ہیں اور کتابوں کی حد تک یہ بڑے پاور فُل قوانین ہے مگر مسئلہ ہمارے عدالتی نظام کا ہے جو آؤٹ ڈیٹڈ ہے۔

ریحام خان نے وزیراعظم عمران خان کے سابق معاون خصوصی زلفی بخاری سے غیر مشروط معافی مانگی۔ (فوٹو: ٹوئٹر)

’دیگر ملکوں کے قوانین کا جائزہ لیا جائے تو ہمارا قانون بھی ویسا ہی ہے مگر وہاں کیسز کی فیس کی مد میں جو ہرجانہ یا جرمانہ ہوتا ہے اس سے بڑا فرق پڑتا ہے۔‘
اسلام آباد کی نجی یونیورسٹی میں قانون پڑھانے والے قانون دان اور پروفیسر شرافت علی نے اردو نیوز کو بتایا کہ مسئلہ یہ ہے کہ معاشرے میں ہتک عزت کو کچھ سمجھا ہی نہیں جاتا۔ اسی طرح جتنے بھی ہتک عزت کے مقدمات دائر ہوتے ہیں ان میں  سے زیادہ تر میں شواہد ریکارڈ کرنے تک بات پہنچتی ہی نہیں۔
فیصل چوہدری اس رائے سے اتفاق نہیں کرتے ان کا کہنا ہے کہ زیادہ تر عدالتی طریقہ کار کی وجہ سے فیصلے تاخیر کا شکار ہوتے ہیں۔ ’ہماری اعلیٰ عدلیہ ہر شعبے کی اصلاح پر زور دیتی ہے صرف اپنی ماتحت عدالتوں میں ریفارمز پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی۔‘
انہوں نے کہا کہ جب تک ماتحت عدالتوں کو ہتک عزت کے مقدمات کے لیے حساس نہیں کیا جائے گا تب تک یہ معاملات ایسے ہی رہیں گے۔
ہائی کورٹ میں پریکٹس کرنے والے نوجوان وکیل عمر گیلانی کہتے ہیں کہ اس معاملے پر اہل علم اور سرکار سے ریسرچ کے لیے فنڈڈ اداروں کو اس پر باقاعدہ تحقیق کرنا چاہیے۔
’اس کے لیے مختلف عدالتوں میں زیر سماعت ہتک عزت کے مقدمات کی فائلیں دیکھنا چاہئیں تاکہ معلوم ہو کہ ایک کیس کا فیصلہ ہونے میں اوسطا کتنے برس لگتے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ لا کمیشن کو اس پر ریسرچ کرنا چاہیے اور اس موضوع پر سنجیدہ گفتگو ہونا چاہیے۔ ’ایک وجہ ہمارا قانونی نظام ہے، ہتک عزت کے مقدمات کا ایک حصہ دیوانی یا سول ہوتا ہے اور ایک ریسرچ کے مطابق پاکستان میں سول کیس کو سپریم کورٹ سے حتمی فیصلہ ہونے تک 25 برس کا عرصہ درکار ہوتا ہے۔‘

اے آر وائے کا مواد برطانیہ میں نشر کرنے والے نیو وژن نے اسحاق ڈار سے تحریری معافی مانگی تھی۔ (فوٹو: ٹوئٹر)

ہتک عزت کے قوانین کے تحت مؤثر کارروائی کیوں نہیں ہوتی اس پر شرافت علی نے بتایا کہ ہتک عزت کے کیس کو اکثر اوقات فائل کرنے والے ہی سنجیدہ نہیں لیتے۔ یہ ایک سماجی رویہ ہے کہ یہ کیس برائے کیس ہوتا ہے۔
’ہتک عزت کا نوٹس دے دیا، چار خبریں شائع ہو گئیں، اس کے بعد ایک اور نوٹس، اور پھر دعویٰ دائر کر دیا۔ بہت کم ہوگا کہ یہ مقدمات شواہد ریکارڈ کرنے کے مرحلے تک پہنچیں۔‘
شرافت علی نے کہا کہ عدالتوں کو کمزور اس وقت کہیں جب طریقہ کار مکمل ہو جائے۔
’ایک وجہ ہتک عزت کو ثابت کرنا مشکل ہونا بھی ہے۔ کسی کے بیان سے دعویٰ دائر کرنے والے کا کیا کیا نقصان ہوا، یہ ساری چیزیں عدالت میں ثابت کرنا ہوتی ہیں تب عدالت ہرجانے کا فیصلہ دیتی ہے۔‘
فیصل چوہدری ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ قوانین پر عمل نہ ہونا اصل مسئلہ ہے۔ عدالتوں کا بہت بڑا کردار ہے۔
’معاملے میں میڈیا بھی ہے، وکلا تنظیمیں بھی ذمہ دار ہیں۔ مختلف گروہ اپنی طاقت کے بل بوتے پر اپنی بات منواتے ہیں صرف قانون کے زور پر تو کچھ نہیں ہوتا۔‘

شیئر: