کلبھوشن اس عدالت پر عدم اعتماد کردے تو کیا ہوگا:جسٹس اطہر من اللہ
کلبھوشن اس عدالت پر عدم اعتماد کردے تو کیا ہوگا:جسٹس اطہر من اللہ
منگل 28 دسمبر 2021 9:21
وسیم عباسی -اردو نیوز، اسلام آباد
بیان حلفی پڑھنے کے بعد عدالت نے رجسٹرار کو دوبارہ لفافے میں سیل کرنے کی ہدایات جاری کیں۔ فوٹو: سکرین گریب
اسلام آباد ہائیکورٹ نے گلگت بلتستان کے سابق چیف جج رانا شمیم کے بیان حلفی کے کیس میں تمام ملزمان پر سات جنوری کو فردِ جرم عائد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
منگل کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے مقدمے کی سماعت کے آغاز پر رانا شمیم کے بیان حلفی کے سیل لفافے کو کھولنے کا حکم دیا۔جب لفافہ کھولا جا رہا تھا تو اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے بتایا کہ بیان حلفی جس لفافے میں بند ہے وہ سربہمر نہیں اور یہ رانا شمیم کے نواسے کا نہیں بلکہ کوریئر کمپنی کا لفافہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ بیان حلفی کیلبری فونٹ میں ہے۔
رانا شمیم نے اٹارنی جنرل کی گفتگو میں مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ وہ فریق نہ بنیں۔ رانا شمیم کے وکیل لطیف آفریدی ایڈووکیٹ نے بتایا کہ ان کے مؤکل نے بیان حلفی کے متن سے انکار نہیں کیا صرف یہ کہا کہ انہوں نے اس کو پھیلایا نہیں۔
بیان حلفی پڑھنے کے بعد عدالت نے رجسٹرار کو دوبارہ سربمہر کرنے کی ہدایات جاری کر دیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کیوں نہ رانا شمیم پر فردِ جرم عائد کر دی جائے۔ ’یہ سنجیدہ معاملہ ہے جس کے نتائج ہوں گے جو اس عدالت اور ججوں پر بھی مرتب ہوں گے۔‘
وکیل لطیف آفریدی نے عدالت میں فردوس عاشق اعوان توہین عدالت اور عمران خان کے مقدمات کے حوالے دیے اور کہا کہ ایسے کیسز آتے رہتے ہیں۔
چیف جسٹس نے سوال کیا کہ جب انصار عباسی کی خبر آئی تو کیا رانا شمیم نے اُن کو نوٹس بھیجا؟
وکیل نے جواب دیا کہ یہ ان کے مؤکل پر منحصر ہے کہ وہ پرائیویسی کی خلاف ورزی پر نوٹس دیں یا کارروائی کریں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ یہ معاملہ کیس سے متعلق ہے کیونکہ اس کا مطلب ہے کہ انہوں نے بیان حلفی کے لیک ہونے کو ایک طرح سے قبول کر لیا۔ ’کل کلبھوشن بیان حلفی دے دے کہ یہ عدالت کمپرومائزڈ ہے اس میں میرا کیس نہ چلے تو کیا ہو گا؟‘
چیف جسٹس نے رانا شمیم کے وکیل سے کہا کہ ’یہ سنجیدہ کیس ہے یا تو آپ ثابت کریں کہ واقعی یہ عدالت کمپرومائزڈ ہے۔‘
عدالت میں پاکستان بار کونسل کی جانب سے امجد شاہ بھی بطور معاون پیش ہوئے۔ چیف جسٹس نے انہیں خوش آمدید کہتے ہوئے کہا کہ اس عدالت کی آزادی کے لیے آپ کا ہونا ضروری ہے۔۔
انہوں نے کہا کہ اس میں رانا شمیم کی ساکھ کا بھی بڑا معاملہ ہے سار کیس یہ ہے تین سال بعد معاملہ سامنے آیا ہے حالانکہ جج صاحب چھٹی پر تھے اور وہ اس بنچ میں بھی نہیں تھے۔ اسی عدالت نےان کو ریلیف بھی دیا جن کے لیے یہ بیان حلفی ریکارڈ ہوا ہے۔
اس موقع پر امجد شاہ نے کہا کہ جن لوگوں کے بیان حلفی میں نام آئے ہیں ان کے بیان حلفی ریکارڈ ہونے چاہیے جس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر پاکستان بار کونسل یہ کہہ رہی ہے تو اس کا مطلب ہے اسے بھی اس عدالت پر شک ہے۔ اس طرح کی بات کے سنگین نتائج ہوں گے کیونکہ انصاف کی فراہمی میں رکاوٹ ہو گی اور جو اپیلیں اس کیس سے متعلق یہاں زیر سماعت ہیں ان کی سماعت ہو ہی نہیں سکتی۔‘
’یہ عدالت پاکستان بار کونسل کا بہت احترام کرتی ہے اگر اس عدالت یا اس کے ججوں پر شک ہے تو بتائیں۔‘
اس پر امجد شاہ نے کہا کہ ’اگر وکلا کو عدالت پر شک ہو تو ان کے پاس آرٹیکل 209 کے تحت سپریم جوڈیشل کونسل کے پاس جانے کا آپشن موجود ہے۔ مگر ہمیں کوئی شک نہیں ہے۔‘
اس موقع پر چیف جسٹس نے واضح کیا کہ ’اس عدالت کا جسٹس ثاقب نثار کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ اس کے ساتھ جو کرنا ہے کر لیں۔‘
صحافی انصار عباسی نے عدالت کو بتایا کہ ان کی رانا شمیم سے خبر شائع ہونے سے پہلے بات ہوئی تھی اور ان کی جانب سے سنائے گئے بیان حلفی کے متن پر رانا شمیم کا جوابی پیغام بھی موجود ہے۔
چیف جسٹس نے ’دی نیوز‘ اخبار کے ایڈیٹر عامر غوری سے پوچھا کہ ’آپ سے سوال ہے کہ کوئی شخص آپ کے اخبار کو استعمال کرنے کے لیے بیان حلفی بنا کر دے دے کسی کیس کو متاثر کرنے کے لیے تو کیا آپ اسے چھاپ دیں گے کیا یہ توہین نہیں ہوگی یا انصاف کی فراہمی میں رکاوٹ نہیں ہو گی۔‘
عامر غوری نے جواب دیا کہ ان کے اخبار کو استعمال نہیں کیا گیا۔ ’صحافی پبلک انٹرسٹ میں کام کرتے ہیں کسی کی نیت کا پتا نہیں ہوتا۔‘
چیف جسٹس نے کہا کہ جس کیس کا بیان حلفی میں ذکر ہے اس میں ریلیف دیا گیا تو ان کے خلاف مہم چلی کہ لندن میں فلیٹ لے لیا ہے لیکن اس کو مائنڈ نہیں کیا، کیا کوئی شخص اس حوالے سے میرے خلاف بیان حلفی لکھ کر دے دیتا تو اخبار چھاپ دیتا؟
انصار عباسی نے اس موقع پر کہا کہ ان کی خبر میں جو رپورٹ ہوا اس کے مطابق جسٹس ثاقب نثار نے پیغام دیا تھا کہ الیکشن سے پہلے ضمانت نہ ہو یا تازہ کیس سے متعلق نہیں تھا۔ میں اس بیان حلفی کے متن کا دفاع نہیں کروں گا وہ رانا شمیم کریں گے۔
اس موقع پر چیف جسٹس نے کہا کہ کیا آپ کو پتا ہے گلگت بلتستان کے چیف جسٹس کو کیسے تعینات کیا جاتا ہے؟ وہ بغیر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی مشاورت سے وزیراعظم خود تعینات کرتے ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ عدالت صحافی سے خاص حالات میں اس کا سورس پوچھ سکتی ہے لیکن یہ عدالت پھر بھی نہیں پوچھے گی۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
عدالتی معاون کے طور پر اپنے دلائل میں اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ جب کوئی جرم ہوتا ہے اس کے تین فریق ہوتے ہیں ۔ایک جرم کرنے والا فریق ہوتا ہے دوسرا اس کا شکار ہوتا ہے تیسرا اس سے مستفید ہونے والا ہوتا ہے ۔اس کیس میں رانا شمیم توہین عدالت کا مرکزی ملزم ہے اس جرم کا شکار عوام اور عدالت ہیں جبکہ اس سے مستفید ہونے والوں کا ہمیں ثبوت نہیں پتا۔ مگر اخبار میں خبر آئی ہے کہ کسی کے گھر میں بیان حلفی ریکارڈ ہوا ہے خبر غلط ہو سکتی ہے مگر ابھی تک ان کی تردید نہیں آئی جن کا گھر ہے۔ تاہم لطیف آفریدی کا کہنا تھا کہ رانا شمیم نے ٹی وی انٹرویو میں تردید کی ہے۔ْ
اٹارنی جنرل نے کہا کہ رانا شمیم نے اپنے تحریری بیان میں مانا ہے کہ بیان حلفی لیک ہونے سے عدالت کی تضحیک ہوئی ہے مگر وہ کہتے ہیں کہ لیک انہوں نے نہیں کیا۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ میرے خیال میں تمام ملزمان کے خلاف فرد جرم عائد کی جائے اور اسکی کی تاریخ دیں۔
تاہم انہوں نے تجویز پیش کی کہ رانا شمیم اور باقی ملزمان کے پاس موقع ہے کہ معافی مانگ لیں اور مان لیں کہ انہیں کسی نے اپنے مقصد کے لیے استعمال کیا گیا ہے ۔ وہ اگر ایسا کریں تو انہیں معافی دے دی جائے۔ انسان سے غلطی ہو جاتی ہے ۔
اس موقع پر انصار عباسی نے کہا کہ ہمارا کیس رانا شمیم صاحب سے مختلف ہے یہ اظہار آزادی کا کیس ہے۔ اس پر چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا یہ عدالت کبھی آزادی اظہار کے خلاف گئی ہے جس پر انصار عباسی نے جواب دیا کہ بالکل نہیں۔
چیف جسٹس نے سوال اٹھایا کہ اگر آپ کی بات مان جاؤں تو کیا پاکستان میں میڈیا آزاد ہے جس پر انصار عباسی نے نفی میں جواب دیا۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ یہ عدالت کی آزادی کا سوال ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ جس (شخص یعنی جسٹس ثاقب نثار) کا بیان حلفی میں کہا گیا ہے وہ بھی جرات نہ کرتا کہ اس عدالت کے کسی جج سے کیس ڈسکس کرے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ عدالت صحافی سے خاص حالات میں اس کا سورس پوچھ سکتی ہے لیکن یہ عدالت پھر بھی نہیں پوچھے گی۔
سماعت کے اختتام پر عدالت نے کیس کے تمام ملزمان پر توہین عدالت کی فردِ جرم عائد کرنے کے لیے سات جنوری کی تاریخ مقرر کر دی۔