Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عائشہ ملک کو سپریم کورٹ کی پہلی خاتون جج بنانے کی سفارش

سپریم جوڈیشل کونسل نے اپنے اجلاس میں کثرت رائے سے جسٹس عاشہ ملک کا نام  پارلیمانی کمیٹی برائے ججز تقرری کو بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ (فوٹو: ٹوئٹر)
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں جوڈیشل کمیشن نے لاہور ہائی کورٹ کی جج جسٹس عائشہ ملک  کو سپریم کورٹ کا جج تعینات کرنے کی سفارش کر دی ہے۔
اگر پارلیمانی کمیٹی برائے ججز تقرری نے منظوری دے دی تو وہ پاکستان کی سپریم کورٹ کی پہلی خاتون جج ہوں گی۔
ذرائع کے مطابق جمعرات کو سپریم جوڈیشل کونسل نے اپنے اجلاس میں کثرت رائے سے جسٹس عاشہ ملک کا نام  پارلیمانی کمیٹی برائے ججز تقرری کو بھیجنے کا فیصلہ کیا۔
یاد رہے کہ وکلا تنظیموں نے اس تقرری کو سنیارٹی اصول کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے اس کی مخالفت کا اعلان کر رکھا ہے۔
اس سے قبل پاکستان بار کونسل نے ایک پریس ریلیز میں کہا تھا کہ چیف جسٹس آف پاکستان نے لاہور ہائی کورٹ کی ایک جونیئر جج کو سپریم کورٹ کی جج بنانے کا فیصلہ کیا ہے جو کہ سنیارٹی لسٹ میں چوتھے نمبر پر ہیں۔‘
پریس ریلیز میں جسٹس عائشہ ملک کا نام لیے بغیر یہ کہا گیا ہے کہ ’اس تعیناتی سے نہ صرف تین جج سپر سیڈ ہو جائیں گے بلکہ چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ بھی اس سے متاثر ہوں گے۔‘
خیال رہے کہ رواں سال نو ستمبر کو بھی جسٹس عائشہ ملک کا نام سپریم جوڈیشل کونسل کے سامنے پیش ہوا تاہم ان کی سپریم کورٹ کے جج کے طور پر تعیناتی نہیں ہو سکی تھی۔ 
ملک میں بعض حلقے سپریم کورٹ میں پہلی خاتون جج کی تعیناتی کو ایک بڑی تبدیلی کے طور پر دیکھ رہے ہیں کیونکہ سپریم کورٹ کا جج بننے کی صورت میں سینارٹی لسٹ کے مطابق وہ ممکنہ طور پر ملک کی پہلی خاتون چیف جسٹس بھی بن سکیں گی۔ 
جسٹس عائشہ اے ملک لاہور ہائی کورٹ کے 40 معزز جج صاحبان میں شامل صرف دو خاتون ججوں میں سے ایک ہیں۔ پاکستان میں خواتین وکلا کے یکساں مواقع کے لیے کام کرنے والے گروپ ’وویمن ان لا‘ کے مطابق محض 15 فیصد خواتین جج پاکستان کی عدلیہ کا حصہ ہیں۔

جوڈیشل کمیشن نے تاریخی فیصلہ کیا یے: فروع  نسیم

وفاقی وزیر قانون فروع نسیم نے کہا کہ جوڈیشل کمیشن نے تاریخی فیصلہ کیا یے۔ ’پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک خاتون کی سپریم کورٹ کے جج کے طور پر تقرری ہوئی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ جوڈیشیل کمیشن کے اجلاس میں پانچ نے حق میں ووٹ دیا اور چار نے مخالفت کی۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بھی جسٹس عائشہ ملک کی تقرری کی مخالفت کی تو ان کا کہنا تھا ’میں مخالفت کرنے والوں کا نہیں بتا سکتا لیکن حمایت کرنے والوں کے نام بتا سکتا ہوں۔‘
ان کے مطابق چیف جسٹس گلزار احمد، جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس سرمد جلال عثمانی، وزیر قانون اور اٹارنی جنرل نے  تقرری کی حمایت کی۔
جب پاکستان بار کونسل کے سنیارٹی سے متعلق اصول پر وزیرقانون سے پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے اس حوالے سے موجود ہیں۔  ’سپریم کورٹ واضح کرچکی ہے کہ ہائی کورٹ کے جج کی سپریم کورٹ میں تقرری پر سنیارٹی اصول کا اطلاق نہیں ہوتا۔‘

شیئر: