Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان میں کرپٹوکرنسی پر پابندی لگائی جائے: حکومتی رپورٹ

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’پاکستان میں کرپٹوکرنسی کا استعمال قیاس آرائیوں پر مبنی ہے‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان میں سندھ ہائی کورٹ کے حکم پر بنائی جانے والی ایک کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں تجویر دی ہے کہ ملک میں کرپٹوکرنسی کو غیر قانونی قرار دیا جانا چاہیے اور اس پر پابندی عائد کی جانی چاہیے۔
واضح رہے کہ اکتوبر 2021 میں کرپٹو کرنسی کے حوالے سے ایک کیس کے دوران سندھ ہائی کورٹ نے پاکستان کے حکومتی اداروں کے نمائندوں پر مشتمل ایک کیمٹی قائم کرنے کا حکم دیا تھا جسے کرپٹوکرنسی کے قانونی یا غیر قانونی ہونے اور نقصانات و فوائد کے حوالے سے تجاویز دینے کا کام سونپا گیا تھا۔
اس کمیٹی میں سٹیٹ بینک آف پاکستان، سکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان، پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی، فائنانشل مانیٹرنگ یونٹ اور وزارت خزانہ کے نمائندے شامل تھے۔
اس کمیٹی کی سربراہی سٹیٹ بینک آف پاکستان کی ڈپٹی گورنر سیما کامل کررہی تھیں۔
پاکستان کے مرکزی بینک کے ترجمان عابد قمر نے رپورٹ عدالت میں جمع کرائے جانے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ کمیٹی میں مختلف اداروں کے نمائندے شامل تھے۔ اس حوالے سے کسی بھی قسم کا تبصرہ کرنے سے انہوں نے انکار کرتے ہوئے کہا کہ رپورٹ کو عدالت میں جمع کروادیا گیا ہے اور اس پر وہ مزید کوئی کمنٹ نہیں کرسکتے۔
بدھ کو اس کمیٹی کی جانب سے کورٹ میں جمع کرائی گئی ایک رپورٹ میں کرپٹوکرنسی کے کاروبار اور اس سے متعلق دیگر سرگرمیوں پر مکمل پابندی لگانے کی تجویر دی گئی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’ایک محتاط رسک بینیفٹ انیلسز کے بعد یہ بات سامنے آئی ہے کہ کرپٹوکرنسیز کے نقصانات فوائد سے زیادہ ہیں۔‘
رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ’پاکستان میں کرپٹوکرنسی کا استعمال قیاس آرائیوں پر مبنی ہے جس کے تحت لوگوں کو مختصر مدت کے فائدے کے لیے ان سکوں میں سرمایہ لگانے کی دعوت دی جارہی ہے۔‘
کمیٹی نے رپورٹ میں مزید لکھا ہے کہ کرپٹوکرنسی کے استعمال کی اجازت دینے کے نتیجے میں پاکستان کے فارن ایکسچینج کو نقصان ہوسکتا ہے اور ملک سے غیر قانونی طور پر فنڈز کی منتقلی بھی کی جاسکتی ہے۔
کمیٹی نے اپنی تجاویز میں یہ بھی کہا ہے کہ کرپٹوکرنسی کے حوالے سے مختلف فراڈ کیسز کی پاکستان کا وفاقی تحقیقاتی ادارہ (ایف آئی اے) بھی تحقیقات کررہا ہے اور ان حالات کی روشنی میں کرپٹوکرنسی ایکسچینج کمپنیوں بشمول بائنانس اور اوکٹاایف ایکس کے آپریشنز پر بھی پابندی لگائی جائے اور ایسی کمپنیوں پر وفاقی حکومت کی جانب سے جرمانے بھی عائد کیے جانے چاہییں۔

رپورٹ میں چین، مصر، بنگلہ دیش، نائجیریا اور ترکی کا بھی ذکر کیا گیا ہے (فوٹو پکسابے)

رپورٹ میں چین، مصر، بنگلہ دیش، نائجیریا اور ترکی کا بھی ذکر کیا گیا ہے جہاں کرپٹوکرنسی پر مکمل پابندی ہے۔
واضح رہے کہ سندھ ہائی کورٹ یہ پہلے ہی واضح کرچکی ہے کہ کرپٹوکرنسی پر پابندی لگانے یا نہ لگانے کا فیصلہ پاکستان کی وفاقی حکومت کرے گی۔ اس ضمن میں کمیٹی کی رپورٹ اور تجاویز وفاقی وزارت داخلہ کو بھیجی جائیں گی۔
 یہاں ایک بات اور قابل ذکر ہے کہ سٹیٹ بینک آف پاکستان 2018 میں ملک میں کام کرنے والے تمام بینکوں کو ہدایات جاری کرچکا ہے کہ اس کی طرف سے کسی بھی شخص یا کمپنی کو ورچوئل کرنسی کی خریدوفروخت یا منتقلی کا لائسنس جاری نہیں کیا گیا ہے۔
پاکستان کے مرکزی بینک کی جانب سے دیگر بینکوں کو کہا گیا تھا کہ کرپٹوکرنسی سے متعلق کسی بھی صارف یا اکاؤنٹ ہولڈر کی مدد نہ کریں اور ایسی کسی بھی ٹرانزیکشن پر فائنانشل مانیٹرنگ یونٹ کو اطلاع دیں۔
کرپٹو کرنسی کے بارے میں ماہرین کیا کہتے ہیں؟
پاکستان میں اقتصادی امور پر گہری نظر رکھنے والے صحافی فاروق بلوچ کہتے ہیں ’کرپٹوکرنسی ابھی چند برس پہلے آئی ہے، لیکن منی لانڈرنگ اور ٹیرر فائنانسنگ پہلے بھی ہوتی تھی۔‘
’ہاں یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ پہلے فزیکلی منی لانڈرنگ کرنا مشکل تھا لیکن کرپٹوکرنسی نے کسی حد تک اسے آسان کردیا ہے۔ اس کا ایک نقصان یہ بھی ہے کہ اس میں سٹے بازی بہت ہے جس سے عام لوگوں کا سرمایہ اکثر ڈوب جاتا ہے۔‘

فاروق بلوچ کہتے ہیں کہ مکمل پابندی اس مسئلے کا حل نہیں ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

تاہم فاروق بلوچ کہتے ہیں کہ مکمل پابندی اس مسئلے کا حل نہیں کیونکہ امریکہ سمیت دیگر ممالک نہ صرف کرپٹوکرنسی پر کام کررہے ہیں بلکہ اس کے پیچھے کام کرنے والے نظام ’بلاک چین ٹیکنالوجی‘ کی کاروباری سرگرمیوں کو بھی متعارف کروارہے ہیں۔‘
’پاکستانی حکام کو چاہیے کہ بلاک چین کے ماہرین سے بات چیت کریں اور ایسے قواعدوضوابط طے کریں جس سے کرپٹوکرنسی کے نقصانات کو کم کیا جاسکے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’کرپٹوکرنسی پر کچھ قوانین بنا کر ٹیکس لگایا جاسکتا ہے، لوگوں کو اس بات کا پابند بنایا جاسکتا ہے کہ وہ اپنے کرپٹو ایسٹس بھی ظاہر کریں۔ مکمل پابندی کی صورت میں تشویش یہی ہے کہ کہیں ٹیکنالوجی میں پاکستان دنیا سے پیچھے نہ رہ جائے۔‘
اس حوالے سے اقتصادی امور کے ماہر اور امریکا میں ’ایٹلانٹک کونسل‘ کے ’پاکستان انیشیٹیو‘ کے ڈائریکٹر عزیر یونس نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’یہ ممکنہ پابندی ایک غلط پالیسی کی طرف قدم ہوگا جس کے بعد کرپٹو میں سرمایہ کاری کرنے والے انڈرگراؤنڈ ہوجائیں گے اور حکومت کے لیے ایسی سرمایہ کاری کا اعدادوشمار رکھنا مشکل ہوجائے گا۔‘
انہوں نے خبردار کیا کہ ایسا قدم پاکستان میں نئے سٹارٹ اپس پر غیرملکی سرمایہ کاری کی بھی حوصلہ شکنی کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔
’ان دونوں صورتوں میں پاکستان کی معیشت اور شہریوں کو ہی نقصان پہنچے گا اور پاکستان باقی دنیا سے پیچھے رہ جائے گا۔‘
واضح رہے کہ گذشتہ ہفتے ایف آئی اے نے پاکستان میں کرپٹوکرنسی کے حوالے سے ایک بڑے فراڈ کا انکشاف کیا تھا جس کے ذریعے پاکستان کے ہزاروں شہریوں کے ساتھ تقریباً 18 ارب روپے کا فراڈ کیا گیا ہے۔

ایف آئی اے کی جانب سے کہا گیا تھا کہ ادارے کو پورے پاکستان سے شکایات موصول ہونا شروع ہوئیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)

ایف آئی اے کی جانب سے کہا گیا تھا کہ ادارے کو 20 دسمبر کو پورے پاکستان سے شکایات موصول ہونا شروع ہوئیں کہ کرپٹوکرنسی کی عالمی ایکسچینج بائنانس سے جڑی 11 ایپلی کیشنز نے کام کرنا بند کردیا ہے اور ان کے اربوں روپے کی سرمایہ کاری ڈوب گئی ہے۔
ایف آئی اے کی جانب سے اس خدشے کا بھی اظہار کیا گیا تھا کہ ممکنہ طور پر کرپٹوکرنسی سے ٹیرر فائنانسنگ اور منی لانڈرنگ بھی ہو رہی تھی۔
اس حوالے سے منگل کے روز وفاقی تحقیقاتی ادارے کے سندھ میں سائبر کرائم ونگ کے سربراہ نے اردو نیوز کو بتایا تھا کہ عالمی کرپٹوکرنسی ایکسچینج کمپنی بائنانس نے پاکستانی شہروں کے تقریباً 18 ارب روپے کے فراڈ کے حوالے سے تحقیقات کے لیے ایف آئی اے سے رابطہ کرلیا ہے۔
ایف آئی اے سائبر کرائم سندھ کے سربراہ عمران ریاض نے منگل کو اردو نیوز کو بتایا کہ بائنانس نے وفاقی تحقیقاتی ادارے کو فراڈ میں ملوث 11 ایپلی کیشنز کے خلاف تحقیقات میں مدد کی یقین دہانی کرائی ہے۔
’بائنانس نے ایف آئی اے کے ساتھ تحقیقات میں تعاون کرنے کے لیے دو ماہرین پر مشتمل ٹیم بنادی ہے۔ دونوں ماہرین امریکی وزارت خرانہ کے سابق اراکین ہیں اور کرپٹوکرنسی سے متعلق امور میں مہارت رکھتے ہیں۔‘

شیئر: