Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’بیٹی پکارتی رہی، مگر بچا نہ سکا‘، بنوں دھماکے میں ایک خاندان کے چھ افراد کی ہلاکت

مقامی افراد کے مطابق ’ریسکیو کا عملہ ایک گھنٹے کی تاخیر کے بعد موقعے پر پہنچا‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع بنوں کے کینٹ میں منگل کو خودکش حملے میں 13 افراد لقمہ اجل بنے جن میں ایک ہی خاندان کے 6 افراد بھی شامل ہیں جو مکان کے ملبے تلے آکر دب گئے۔
 متاثرہ خاندان افطاری کے وقت ایک ہی دسترخوان پر بیٹھ کر روزہ افطار کر رہا تھا کہ دھماکے کی وجہ سے گھر کی چھت منہدم ہوگئی۔ 
یاد رہے کہ منگل کو ضلع بنوں کے کینٹ میں دو خودکش دھماکوں میں کم سے کم 13 افراد ہلاک جبکہ 32 زخمی ہوگئے تھے۔
دہشت گردوں نے کینٹ کی دیوار توڑنے کے لیے دو خودکش دھماکے کیے۔ دھماکوں کے بعد حملہ آوروں نے اندر گھسنے کی کوشش کی جنہیں سکیورٹی فورسز نے کارروائی کر کے ہلاک کر دیا۔
پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کا کہنا تھا کہ بنوں چھاؤنی میں فائرنگ کے تبادلے میں پانچ سکیورٹی اہلکار جان سے گئے جبکہ چار خودکش بمباروں سمیت 16 شدت پسندوں کو ہلاک کردیا گیا۔
بنوں کینٹ میں دہشت گردی کا نشانہ بننے والے متاثرہ خاندان کے سربراہ محمد خلیل نواز افطاری کے وقت گھر پر موجود تھے، تاہم خوش قسمتی سے وہ محفوظ رہے۔
خلیل نواز نے آنکھوں دیکھا حال کچھ یوں بیان کیا کہ وہ اپنے گھر کے تمام افراد کے ساتھ بیٹھے افطاری کر رہے تھے۔
’ابھی روزہ کھولنے کے لیے کھجور کھائی ہی تھی کہ ایک دھماکہ ہوا مگر وہ اتنا شدید نہیں تھا، پھر اس کے فوراً بعد ایک دوسرا زورداد دھماکہ ہوا۔‘ 
خلیل نواز نے بتایا کہ ’دوسرا دھماکہ اتنا شدید تھا کہ میرے گھر کے تمام کمروں کی چھتیں گر گئیں جس سے تین بیٹیوں سمیت بڑا بیٹا جان سے گیا جبکہ مرنے والوں میں میری دو پوتیاں بھی شامل ہیں۔‘ 
انہوں نے کہا کہ ’افطاری سے چند لمحے قبل میرا ہنستا بستا گھر تھا، بڑی بیٹی نے اپنے ہاتھ سے میرے لیے افطاری تیار کی تھی، لیکن مجھے کیا معلوم تھا کہ وہ اس کے ہاتھ کی آخری افطاری ہوگی۔‘

خلیل نواز کہتے ہیں کہ ’دھماکے میں ان کے بڑے بیٹے، تین بیٹیوں اور دو پوتیوں کی جان چلی گئی ‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

خلیل نواز کہتے ہیں کہ مکان کی چھت گرنے کے بعد میری چھوٹی بیٹی مدد کے لیے چیختی رہی چلاتی رہی مگر میں اسے نہ بچا سکا۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ’اس دھماکے میں میری اہلیہ اور دو چھوٹے بیٹے محفوظ رہے۔‘
ریسکیو آپریشن میں تاخیر ہوئی
سماجی کارکن امتیاز احمد خیل نے اردو نیوز کو بتایا کہ کینٹ کے مرکزی دروازے کے قریب دیوار کے ساتھ بارُود سے بھری گاڑی ٹکرائی گئی جس نے مسجد سمیت آس پاس کے گھروں کو شدید نقصان پہنچایا۔
ان کا کہنا ہے کہ دھماکے کے فوری بعد ریسکیو 1122 کو مدد کے لیے کال کی گئی تھی، تاہم ریسکیو کا عملہ ایک گھنٹے کی تاخیر کے بعد موقعے پر پہنچا۔
امتیاز احمد خیل کے مطابق دھماکے کے بعد فائرنگ کا سلسلہ دیر تک جاری رہا جس کی وجہ سے ایمبولینس اور ریسکیو کی ٹیم کے آنے میں تاخیر ہوئی۔
ان کا کہنا تھا کہ ’اگر ریسکیو کا عمل بروقت شروع کر دیا جاتا تو شاید ملبے سے کچھ افراد کو زندہ نکالا جا سکتا تھا۔‘ 
امتیاز احمد خیل کہتے ہیں کہ ’آج  ایک ہی علاقے سے 13 جنازے نکلے، معصوم بچیوں کی ہلاکت پر ہر آنکھ اشکبار تھی۔‘ 
خودکش بمباروں کے دھماکے میں مسجد میں موجود قاری اور دیگر نمازی بھی چھت گرنے کی وجہ سے شدید زخمی ہوئے۔

شیئر: