توہین عدالت کیس: رانا شمیم پر فرد جرم عائد، صحافیوں پر موخر
توہین عدالت کیس: رانا شمیم پر فرد جرم عائد، صحافیوں پر موخر
جمعرات 20 جنوری 2022 10:05
زین الدین احمد، خرم شہزاد، اردو نیوز
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ’اظہار رائے کی آزادی ضروری ہے لیکن یہاں معاملہ پیچیدہ ہے (فوٹو:اے ایف پی)
اسلام آباد ہائی کورٹ نے توہین عدالت کیس میں گلگت بلتستان کے سابق چیف جج رانا شمیم پر فرد جرم عائد کر دی ہے۔
جمعرات کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں گلگت بلتستان کے سابق چیف جج رانا شمیم کے بیان حلفی کی خبر شائع کرنے پر شروع کیے گئے توہین عدالت کے مقدمے کی سماعت ہوئی۔
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے سماعت کے دوران ریمارکس دئیے کہ ’اظہار رائے کی آزادی ضروری ہے لیکن یہاں معاملہ پیچیدہ ہے، یہ بتا دیں کہ اس عدالت کے ساتھ ایسا سلوک کیا جا سکتا ہے؟‘
مقدمے کی سماعت کے دوران اٹارنی جنرل خالد جاوید خان، ایڈیشنل اٹارنی جنرل قاسم ودود، عدالتی معاونین ناصر زیدی، فیصل صدیقی اور ریما عمر جبکہ رانا شمیم، دی نیوز کے ایڈیٹر انچیف اور ایڈیٹر انوسٹی گیشن انصار عباسی بھی عدالت کے روبرو پیش ہوئے۔
دورانِ سماعت چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ’اگر تھرڈ پارٹی کسی کو کوئی نقصان پہنچانا چاہے تو وہ انصار عباسی صاحب کے ذریعے کوئی چیز لیک کروا دے۔ اس میں ہمارا بھی قصور ہے کہ عدالتی معاملات میں پہلے کبھی روکا نہیں گیا۔‘
اٹارنی جنرل نے استدعا کی کہ ’رانا صاحب پر بے شک قانون کے مطابق چارج لگا دیں لیکن باقیوں پر نہ لگائیں‘ جس پر چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ چارج نہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ لائسنس دے دیا جائے کہ کوئی بھی تھرڈ پارٹی اخبار کو استعمال کر کے کسی کا کیس خراب کر دے۔‘
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ یہ عدالت اوپن احتساب پر یقین رکھتی ہے۔ ’ایک اخبار کے ایک آرٹیکل کا تعلق ثاقب نثار سے نہیں اسلام آباد ہائی کورٹ کے ساتھ ہے۔ لوگوں کو بتایا گیا ہے کہ اس عدالت کے ججز کمپرومائزڈ ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ’ کل کو کوئی بھی تھرڈ پارٹی ایک کاغذ دے گی اور اس کو ہم چھاپ دیں گے تو کیا ہو گا؟ اتنا بڑا اخبار کہے کہ انہوں نے اس حوالے سے کوئی قانونی رائے نہیں لی تو پھر یہ زیادتی ہوگی۔‘
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ رانا شمیم نے دو درخواستیں دائر کی ہیں، وہ درخواستیں کیا ہیں؟ جس پر سابق چیف جج رانا شمیم روسٹرم پر آئے اور اپنی متفرق درخواست پڑھ کر سنائی۔
رانا شمیم نے کہا کہ ’بیان حلفی سے متعلق کسی کو بتائے بغیر 10 نومبر 2021 کو سربمہر کیا اور انگلینڈ میں نواسے کےحوالے کیا، 30 اکتوبر 2021 کو امریکا میں سمپوزیم میں بطور مہمان خصوصی شرکت کی جس کا موضوع پاکستان میں جوڈیشل ایکٹوزم تھا۔‘
انہوں نے عدالت کو بتایا کہ ’چھ نومبر کو بھائی کی وفات کی اطلاع ملی تو پاکستان کی براہ راست پروازنہ مل سکی اس لیے برطانیہ کی ٹرانزٹ فلائیٹ کے ذریعے واپس آیا۔‘
رانا شمیم کے بقول خاندان کے قریبی افراد کی موت کے بعد اپنے علم میں موجود واقعہ جلد از جلد تحریری شکل میں لانے کی اہمیت کا احساس ہوا۔
انہوں نے کہا کہ ’یہ بات سپریم جوڈیشل کونسل کو اس لیے نہیں بتائی کیونکہ سابق چیف جسٹس ثاقب نثار اس وقت خود سپریم جوڈیشل کونسل کے سربراہ تھے۔ یہ واقعہ پاکستان کی حدود سے باہر پیش آیا اور اس واقعہ کے ایک ماہ بعد عہدے سے بھی ریٹائر ہو گیا۔
رانا شمیم کا کہنا تھا کہ بیان حلفی میں بیان کردہ حقائق میں وہی کچھ بیان کیا گیا جو خود سنا۔
انہوں نے بتایا کہ ’یہ حقائق زندگی بھر بیان نہ کرنے کا ارادہ تھا مگر اہلیہ سے کیا گیا وعدہ اور فیملی ممبرز کی اموات کے بعد حالات کے باعث حقائق کو بیان حلفی کی شکل میں ریکارڈ کیا۔‘
رانا شمیم نے موقف اپنایا کہ ’بیان حلفی میں بیان کردہ حقائق غلط ثابت ہونے تک یہ مجرمانہ توہین کا کیس نہیں بنتا، اگر بیان حلفی میں بیان کردہ حقائق درست ثابت ہو جائیں تو کیس ہی ختم ہو جائے گا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ بیان حلفی کی تشہیر کا کبھی کوئی ارادہ نہیں تھا اس لیے اسے خفیہ رکھا اور پاکستان سے باہر ریکارڈ کرایا۔
سابق چیف جج رانا شمیم نے استدعا کی کہ توہین عدالت کی فرد جرم عائد کرنے کے بجائے حقائق جاننے کے لیے انکوائری شروع کی جائے۔
جس کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے رانا شمیم پر فرد جرم عائد کر دی اور بعد میں یہ فرد جرم پڑھ کر سناتے ہوئے کہا کہ ’آپ نے انگلینڈ میں بیان حلفی ریکارڈ کرایا، آپ نے کہا چیف جسٹس ثاقب نثار چھٹیوں پر گلگت بلتستان آئے۔ آپ کے مطابق انہوں نے ہدایات دیں کہ نواز شریف اور مریم نواز الیکشن سے پہلے باہر نہیں آنے چاہییں۔‘
عدالت نے رانا شمیم کی پراسیکیوٹر کی تبدیلی کی درخواست اور فرد جرم سے قبل انکوائری کرانے کی درخواست بھی مسترد کرتے ہوئے کیس کی مزید سماعت 15 فروری تک ملتوی کر دی۔
تاہم عدالت نے آج کی سماعت کے دوران صحافیوں پر فرد جرم عائد نہیں کی اور اس کی کاروائی موخر کر دی۔
اس بارے میں چیف جسٹس کہ کہنا تھا کہ ’ عدالت صحافیوں کے خلاف چارج نہیں لگا رہی۔ اگر سماعت کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ یہ جان بوجھ کر کیا گیا تھا تو ان کے خلاف بھی کارروائی ہو گی۔‘
سماعت کے دوران ایک مرتبہ عدالت میں اس وقت قہقہے گونج اٹھے جب عدالتی معاون اور سینیئر صحافی ناصر زیدی کے دلائل کے دوران چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ’آپ نے تو کوڑے بھی کھائے ہیں، ویسے کیا کوڑے زور سے لگتے ہیں؟‘
کچھ دیر بعد انہوں نے پھر ان سے پوچھا ’آپ نے کوڑوں کا نہیں بتایا؟‘