وزیراعلٰی بلوچستان عبدالقدوس بزنجو کی حکومت بھی اختلافات کا شکار ہوگئی ہے۔ بلوچستان عوامی پارٹی کے پارلیمانی لیڈر اور صوبائی وزیر ترقی و منصوبہ بندی ظہور احمد بلیدی سمیت کابینہ کے کئی اراکین نے حزب اختلاف کے حلقوں کو ترقیاتی فنڈز دینے کی سخت مخالفت کی ہے۔
ظہور بلیدی اور اتحادی جماعت عوامی نیشنل پارٹی کے انجینیئر زمرک خان اچکزئی نے احتجاجاً کابینہ کے اجلاس سے واک آؤٹ بھی کیا۔
ظہور احمد بلیدی کا کہنا ہے کہ فنڈز کی بندربانٹ اور ریوڑیوں کی طرح تقسیم قبول نہیں ہے، وزیراعلٰی نے بات نہیں سنی تو بلوچستان عوامی پارٹی کے پارلیمانی ارکان کا اجلاس بلا کر معاملہ اٹھائیں گے۔
مزید پڑھیں
-
بلوچستان میں آٹے کی قیمت دیگر صوبوں سے کیوں زیادہ ہے؟Node ID: 604821
خیال رہے کہ صرف تین ماہ قبل جام کمال کی حکومت کے خلاف بغاوت کر کے حزب اختلاف کے تعاون سے وجود میں آنے والی عبدالقدوس بزنجو کی کابینہ میں اختلافات حزب اختلاف کے حلقوں کو 30 ارب روپے کے ترقیاتی فنڈز دینے پر پیدا ہوئے ہیں۔
منگل کو ہونے والے بلوچستان کابینہ کے اجلاس میں 36 نکاتی ایجنڈے کی منظوری دی گئی جس میں سالانہ ترقیاتی پروگرام (پی ایس ڈی پی) میں 30 ارب 88 کروڑ روپے مالیت کے ایک ہزار 232 نئے منصوبوں کی منظوری بھی شامل ہے۔
حکومتی ذرائع نے اردو نیوز کو بتایا کہ کابینہ اجلاس میں بلوچستان عوامی پارٹی کے صوبائی پارلیمانی لیڈر اور سینیئر صوبائی وزیر ظہور احمد بلیدی نےان منصوبوں پر شدید اعتراض اٹھایا ہے۔ ان کا مؤقف تھا کہ مالی سال کے آخر میں نئے منصوبوں کی شمولیت سے حکومت کے پہلے سے منظور کیے گئے منصوبے متاثر ہوں گے اورترقیاتی بجٹ اوپر نیچے ہوجائے گا جس کا سب سے زیادہ نقصان حکومتی حلقوں کو پہنچے گا۔
ذرائع کے مطابق اتحادی جماعتوں تحریک انصاف، عوامی نیشنل پارٹی، ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی اور جمہوری وطن پارٹی سے تعلق رکھنے والے بعض وزرا اور مشیروں نے بھی اس پر اعتراض اٹھایا اور ظہور احمد بلیدی کی حمایت کی۔
ظہور احمد بلیدی اور اے این پی کے انجینیئر زمرک چکزئی احتجاج کرتے ہوئے اجلاس سے باہر چلے گئے۔ اے این پی کے صوبائی صدر اصغر خان اچکزئی اور سینیئر صوبائی وزیر ترقی و منصوبہ بندی ظہور احمد بلیدی نے ٹوئٹر پر اپنے بیان میں کہا کہ متعدد وزرا نے پی ایس ڈی پی میں نئے منصوبوں کی شمولیت کے خلاف کابینہ میں اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے ظہور بلیدی کا کہنا تھا کہ مالی سال کی تیسری سہ ماہی میں 30 ارب روپے کے نئے ترقیاتی منصوبے شامل کر کے پلاننگ کمیشن اور صوبے کے اپنے ہی منظور کردہ قانون پبلک فنانس مینجمنٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔
’ترقیاتی منصوبے ضرورت کی بنیاد پر ہونے چاہییں نہ کہ فنڈز کی بندربانٹ کی جائے۔ اس اقدام سے بجٹ میں پہلے سے شامل اور جاری ترقیاتی منصوبے متاثر ہوں گے اور ان پر کام رک جائے گا کیونکہ صوبے کے پاس اتنے فنڈز نہیں۔ بلوچستان کا بجٹ خسارے میں ہے اور نئے منصوبوں کی شمولیت سے یہ خسارہ 200 ارب روپے تک پہنچ جائے گا۔‘
ظہور بلیدی کا کہنا تھا کہ ’تنخواہیں تو کم نہیں کی جا سکتیں اس لیے اس خسارے کو پورا کرنے کے لیے ترقیاتی بجٹ میں کٹوتی کرنا پڑے گی۔ مالی سال ختم ہونے میں صرف پانچ ماہ رہ گئے ہیں، اس دوران نئے منصوبوں کے لیے فنڈز جاری ہوسکیں گے اور نہ ہی ان پر کام شروع ہوسکے گا اس لیے یہ منصوبے تھرو فارورڈ میں چلے جائیں گے۔‘
انہوں نے کہا کہ وہ بلوچستان عوامی پارٹی کے صوبائی اراکین اسمبلی کا اجلاس بلا کر اس معاملے کو وہاں اٹھائیں گے۔
صوبائی وزیر خوراک انجینیئر زمرک اچکزئی نے بھی ظہور بلیدی کے مؤقف کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں رواں مالی سال کے سالانہ ترقیاتی پروگرام پر نظر ثانی قبول نہیں۔ ہم اپوزیشن کو فنڈز دینے کے بالکل بھی خلاف نہیں لیکن ایک ایسے وقت میں جب رواں مالی سال کا نصف گزر چکا ہے تیسری سہ ماہی شروع ہوچکی ہے ایسے میں 30 ارب روپے کے منصوبے شامل کرکے اپوزیشن اراکین کو خوش کرنے کا عمل بہت ساری پیچیدگیوں کو جنم دے سکتا ہے۔
زمرک اچکزئی کا کہنا تھا کہ ’ہم سیاسی ماحول کی بہتری چاہتے ہیں اور اتحادی حکومت کے معاملات میں کوئی پیچیدگی نہیں چاہتے اس لیے بروقت خبردار کررہے ہیں کہ کوئی بھی ایسا اقدام نہ اٹھایا جائے۔‘
بلوچستان عوامی پارٹی کے ترجمان صوبائی وزیرمواصلات سردار عبدالرحمان کھیتران نے اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ کابینہ میں تمام فیصلے متفقہ اور اکثریتی رائے کے ساتھ کیے جاتے ہیں اور کوئی فرد واحد اپنی رائے کو زبردستی مسلط نہیں کرسکتا۔
بلوچستان اسمبلی میں حزب اختلاف کی جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی کے رکن ثنا اللہ بلوچ نے ظہور احمد بلیدی کی ٹویٹ کے جواب میں لکھا کہ عدم مساوات اور غیر ضروری سکیموں پر مشتمل پی ایس ڈی پی میں توازن اور محروم علاقوں اور حلقوں کی ضرورت کے پیش نظر ایڈجسٹمنٹ کی حمایت کرنی چاہیے۔ کابینہ کی آئینی ذمہ داری ہے کہ ترقیاتی عمل کی منصفانہ اور تمام شہریوں تک یکساں رسائی کو ممکن بنائے جو کہ جام حکومت میں نظر انداز ہوئے۔
عدم مساوات و غیر ضروری اسکیمات پرمشتمل PSDP میں توازن و محروم علاقوں و حلقوں کی ضروریات کے پیش نظر adjustment و ایسے اسکیمات کی حمایت کرنی چاہیے تھی۔ #کابینہ کی آہینی زمہ داری ہے ترقیاتی عمل کی منصفانہ و یکساں رسائی کو تمام شہریوں تک ممکن بنائے جو جام حکومت میں نظر انداز ہوئے- https://t.co/3T4s6aaCAg
— Sana Ullah BALOCH, MPA (@Senator_Baloch) February 1, 2022