Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اپوزیشن کو ’نوازنے‘ پر وزیر اعلٰی عبدالقدوس بزنجو کی حکومت میں اختلافات

کئی وزرا حزب اختلاف کو ترقیاتی فنڈز دینے کے مخالف ہیں (فوٹو: وزیراعلٰی بلوچستان ٹوئٹر)
 وزیراعلٰی بلوچستان عبدالقدوس بزنجو کی حکومت بھی اختلافات کا شکار ہوگئی ہے۔ بلوچستان عوامی پارٹی کے پارلیمانی لیڈر اور صوبائی وزیر ترقی و منصوبہ بندی ظہور احمد بلیدی سمیت کابینہ کے کئی اراکین نے حزب اختلاف کے حلقوں کو ترقیاتی فنڈز دینے کی سخت مخالفت کی ہے۔
ظہور بلیدی اور اتحادی جماعت عوامی نیشنل پارٹی کے انجینیئر زمرک خان اچکزئی نے احتجاجاً کابینہ کے اجلاس سے واک آؤٹ بھی کیا۔
ظہور احمد بلیدی کا کہنا ہے کہ فنڈز کی بندربانٹ اور ریوڑیوں کی طرح تقسیم قبول نہیں ہے، وزیراعلٰی نے بات نہیں سنی تو بلوچستان عوامی پارٹی کے پارلیمانی ارکان کا اجلاس بلا کر معاملہ اٹھائیں گے۔ 
خیال رہے کہ صرف تین ماہ قبل جام کمال کی حکومت کے خلاف بغاوت کر کے حزب اختلاف کے تعاون سے وجود میں آنے والی عبدالقدوس بزنجو کی کابینہ میں اختلافات حزب اختلاف کے حلقوں کو 30 ارب روپے کے ترقیاتی فنڈز دینے پر پیدا ہوئے ہیں۔
منگل کو ہونے والے بلوچستان کابینہ کے اجلاس میں 36 نکاتی ایجنڈے کی منظوری دی گئی جس میں سالانہ ترقیاتی پروگرام (پی ایس ڈی پی) میں 30 ارب 88 کروڑ روپے مالیت کے ایک ہزار 232 نئے منصوبوں کی منظوری بھی شامل ہے۔ 
حکومتی ذرائع نے اردو نیوز کو بتایا کہ کابینہ اجلاس میں بلوچستان عوامی پارٹی کے صوبائی پارلیمانی لیڈر اور سینیئر صوبائی وزیر ظہور احمد بلیدی نےان منصوبوں پر شدید اعتراض اٹھایا ہے۔ ان کا مؤقف تھا کہ مالی سال کے آخر میں نئے منصوبوں کی شمولیت سے حکومت کے پہلے سے منظور کیے گئے منصوبے متاثر ہوں گے اورترقیاتی بجٹ اوپر نیچے ہوجائے گا جس کا سب سے زیادہ نقصان حکومتی حلقوں کو پہنچے گا۔
ذرائع کے مطابق اتحادی جماعتوں تحریک انصاف، عوامی نیشنل پارٹی، ہزارہ ڈیموکریٹک پارٹی اور جمہوری وطن پارٹی سے تعلق رکھنے والے بعض وزرا اور مشیروں نے بھی اس پر اعتراض اٹھایا اور ظہور احمد بلیدی کی حمایت کی۔

بلوچستان حکومت نے 30 ارب 88 کروڑ روپے کے سالانہ ترقیاتی پروگراموں کی منظوری دی ہے (فوٹو: وزیراعلیٰ بلوچستان ٹوئٹر)

ظہور احمد بلیدی اور اے این پی کے انجینیئر زمرک چکزئی احتجاج کرتے ہوئے اجلاس سے باہر چلے گئے۔ اے این پی کے صوبائی صدر اصغر خان اچکزئی اور سینیئر صوبائی وزیر ترقی و منصوبہ بندی ظہور احمد بلیدی نے ٹوئٹر پر اپنے بیان میں کہا کہ متعدد وزرا نے پی ایس ڈی پی میں نئے منصوبوں کی شمولیت کے خلاف کابینہ میں اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے ظہور بلیدی کا کہنا تھا کہ مالی سال کی تیسری سہ ماہی میں 30 ارب روپے کے نئے ترقیاتی منصوبے شامل کر کے پلاننگ کمیشن اور صوبے کے اپنے ہی منظور کردہ قانون پبلک فنانس مینجمنٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔
’ترقیاتی منصوبے ضرورت کی بنیاد پر ہونے چاہییں نہ کہ فنڈز کی بندربانٹ کی جائے۔ اس اقدام سے بجٹ میں پہلے سے شامل اور جاری ترقیاتی منصوبے متاثر ہوں گے اور ان پر کام رک جائے گا کیونکہ صوبے کے پاس اتنے فنڈز نہیں۔ بلوچستان کا بجٹ خسارے میں ہے اور نئے منصوبوں کی شمولیت سے یہ خسارہ 200 ارب روپے تک پہنچ جائے گا۔‘
ظہور بلیدی کا کہنا تھا کہ ’تنخواہیں تو کم نہیں کی جا سکتیں اس لیے اس خسارے کو پورا کرنے کے لیے ترقیاتی بجٹ میں کٹوتی کرنا پڑے گی۔ مالی سال ختم ہونے میں صرف پانچ ماہ رہ گئے ہیں، اس دوران نئے منصوبوں کے لیے فنڈز جاری ہوسکیں گے اور نہ ہی ان پر کام شروع ہوسکے گا اس لیے یہ منصوبے تھرو فارورڈ میں چلے جائیں گے۔‘
انہوں نے کہا کہ وہ بلوچستان عوامی پارٹی کے صوبائی اراکین اسمبلی کا اجلاس بلا کر اس معاملے کو وہاں اٹھائیں گے۔ 

سابق وزیراعلیٰ جام کمال کو ہٹا کرعبدالقدوس بزنجو کو وزیراعلٰی بنایا گیا تھا (فائل فوٹو: اے پی ہی)

صوبائی وزیر خوراک انجینیئر زمرک اچکزئی نے بھی ظہور بلیدی کے مؤقف کی تائید کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں رواں مالی سال کے سالانہ ترقیاتی پروگرام  پر نظر ثانی قبول نہیں۔ ہم اپوزیشن کو فنڈز دینے کے بالکل بھی خلاف نہیں لیکن ایک ایسے وقت میں جب رواں مالی سال کا نصف گزر چکا ہے تیسری سہ ماہی شروع ہوچکی ہے ایسے میں 30 ارب روپے کے منصوبے شامل کرکے اپوزیشن اراکین کو خوش کرنے کا عمل بہت ساری پیچیدگیوں کو جنم دے سکتا ہے۔
زمرک اچکزئی کا کہنا تھا کہ ’ہم سیاسی ماحول کی بہتری چاہتے ہیں اور اتحادی حکومت کے معاملات میں کوئی پیچیدگی نہیں چاہتے اس لیے بروقت خبردار کررہے ہیں کہ کوئی بھی ایسا اقدام نہ اٹھایا جائے۔‘
بلوچستان عوامی پارٹی کے ترجمان صوبائی وزیرمواصلات سردار عبدالرحمان کھیتران نے اپنے ردعمل میں کہا ہے کہ  کابینہ میں تمام فیصلے متفقہ اور اکثریتی رائے کے ساتھ کیے جاتے ہیں اور کوئی فرد واحد اپنی رائے کو زبردستی مسلط نہیں کرسکتا۔ 
بلوچستان اسمبلی میں حزب اختلاف کی جماعت بلوچستان نیشنل پارٹی کے رکن ثنا اللہ بلوچ نے ظہور احمد بلیدی کی ٹویٹ کے جواب میں لکھا کہ عدم مساوات اور غیر ضروری سکیموں پر مشتمل پی ایس ڈی پی میں توازن اور محروم علاقوں اور حلقوں کی ضرورت کے پیش نظر ایڈجسٹمنٹ کی حمایت کرنی چاہیے۔ کابینہ کی آئینی ذمہ داری ہے کہ ترقیاتی عمل کی منصفانہ اور تمام شہریوں تک یکساں رسائی کو ممکن بنائے جو کہ جام حکومت میں نظر انداز ہوئے۔
یہ پہلی بار نہیں کہ ترقیاتی فنڈز کی تقسیم کے معاملے پر حکومت کے اندر یا حکومتی ارکان اور حزب اختلاف کے درمیان اختلافات پیدا ہوئے ہیں ۔ جون 2021ء میں جام کمال کی حکومت کے دور میں بجٹ اجلاس کے موقع پر حزب اختلاف کے اراکین نے بلوچستان اسمبلی کا گھیراؤ کیا۔ اس دوران ہنگامہ آرائی کے دوران کئی ارکان اسمبلی زخمی ہوگئے تھے اور اسمبلی کے مرکزی دراوزہ بھی ٹوٹ گیا تھا۔
اس کے بعد حزب اختلاف کے اراکین نے جام کمال حکومت کے خلاف احتجاجی مہم چلائی اور جب حکومتی ارکان نے جام کمال کو ہٹانے کی کوششیں شروع کیں تو حزب اختلاف نے بھر پور ساتھ دیااور عبدالقدوس بزنجو اقتدار میں آگئے۔گزشتہ دنوں بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں حزب اختلاف اور حکومت کے درمیان کسی خفیہ معاہدے کی باز گشت بھی سنائی دی۔
حزب اختلاف کے رکن ثناء بلوچ کا کہنا تھا کہ ہم نے 24 معاملات پر ایک سمجھوتے کے تحت حکومت کاساتھ دیا تاہم صوبائی وزیر ظہور بلیدی نے ایسے کسی سمجھوتے یا معاہدے کی نفی کی اور کہا کہ ہماری حکومت نے حزب اختلاف سے کوئی معاہد ہ نہیں کیا۔
 بلوچستان عوامی پارٹی کے رکن اسمبلی سلیم کھوسہ نے 2013ء کے انتخابات کے بعد مری میں ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ اور ثناء اللہ زہری کے درمیان شراکت اقتدار کے معاہدے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ مری معاہدے کے بعد اب 'فارم ہاؤس 'معاہدے کی باز گشت سنائی دے رہی ہے ،اس معاہدے کو پوشیدہ رکھنے کی بجائے ایوان میں لایا جائے تاکہ پتہ چل سکے کہ یہ صوبے کے مفاد میں ہے یا ذاتی نوعیت کا ہے۔

بلوچستان عوامی پارٹی کے پارلیمانی لیڈر ظہور بلیدی نے فنڈز کے معاملے پر شدید اعتراض اٹھایا ہے (فائل فوٹو: اے پی پی)

مولانا فضل الرحمان کی جمعیت علماء اسلام ، سردار اختر مینگل کی بلوچستان نیشنل پارٹی اور محمود خان اچکزئی کی جماعت پشتونخوا ملی عوامی پارٹی پر مشتمل حزب اختلاف اور قدوس بزنجو حکومت کے درمیان خفیہ سمجھوتے پر تبصرہ کرتے ہوئے کوئٹہ کے سینئر صحافی اور تجزیہ کار سید علی شاہ نے اس بات سے اتفاق کیا کہ بلوچستان میں حزب اختلاف کا کردار مبہم ہے
ان کے بقول ’اپوزیشن اپوزیشن بھی ہے اور بیک وقت حکومت بھی ہے۔‘
سید علی  شاہ کے مطابق تین سالوں سے اپوزیشن پر ترقیاتی فنڈزکے دروازے بند تھے اب اچانک وہ تمام دروازے کھول دیے گئے ہیں اور اب حکمران جماعت کے وزراء بھی پریشان ہیں کہ ان کے حصہ کی کٹوتی ہوگی۔

شیئر: