Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کوئٹہ کے علاقے زرغون غر میں کوئلے کی کان میں دھماکہ، چار مزدور ہلاک

حکام کے مطابق زخمیوں کو سول ہسپتال کے ٹراما سینٹر منتقل کر دیا گیا ہے۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
کوئٹہ میں کوئلہ کان میں گیس دھماکے کے باعث پیش آنے والے حادثے میں چار کانکن ہلاک جبکہ باقی چار کو زندہ بچا لیا گیا ہے۔
کانکنوں کا کہنا ہے کہ اموات بروقت امدادی ٹیمیں نہ پہنچنے کی وجہ سے ہوئیں۔
مزید پڑھیں
مائنز انسپکٹر کوئٹہ محمد عاطف نے اردو نیوز کو بتایا کہ حادثہ جمعے اور سنیچر کی درمیانی شب کوئٹہ کے نواحی علاقے سرہ غڑگئی زرغون غر میں منگل ڈیم کے قریب پیش آیا جہاں ایک کوئلہ کان میں میتھین گیس کی زیادہ مقدار جمع ہونے سے دھماکا ہوا اور آگ کے شعلے بلند ہوئے۔  
انہوں نے بتایا کہ دھماکے کے بعد کان کا کچھ حصہ بیٹھ گیا اور آٹھ کانکن تین سو فٹ کی گہرائی میں پھنس گئے۔ 
کانکن عبدالرحمان نے بتایا کہ حادثے کے فوری بعد پولیس، ایف سی کنٹرول اور فلاحی تنظیموں کی ایمرجنسی سروسز کو فون پر اطلاع دی مگر انہوں نے خود ٹیمیں بھیجیں اور نہ متعلقہ محکموں کو حادثے سے آگاہ کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’پی ڈی ایم اے کی ٹیم کئی گھنٹے بعد پہنچی مگر ان کے پاس ضروری آلات نہیں تھے۔‘
ان کے مطابق باقی کانکنوں نے اپنی مدد آپ کے تحت ساتھیوں کو بچانے کی کوشش کی مگر ان کے پاس ضروری سامان نہیں تھا، امدادی کارروائی میں حصہ لینے والے دو کانکن بے ہوش بھی ہوئے۔ بروقت امداد پہنچتی تو شاید کانکنوں کی زندگی بچا لی جاتی۔ 
مائنز انسپکٹر محمد عاطف نے بتایا کہ ’ہمیں تین بجے اطلاع ملی اور چار ساڑھے چار بجے ٹیم موقع پر پہنچی اور تین سو فٹ کی گہرائی سے آٹھ کانکنوں کو نکالا جن میں سے چار کی دم گھٹنے اور جھلسنے کی وجہ سے موت ہو گئی تھی جبکہ چار کو زندہ ریسکیو کرکے سول ہسپتال اور بولان میڈیکل ہسپتال منتقل کر دیا گیا۔ 
ہلاک کانکنوں کی شناخت محمد خان، مطیع اللہ، ہدایت اللہ اور مولانا فضل کے ناموں سے ہوئی ہے جو کوئٹہ کے علاقے نواں کلی کے رہائشی بتائے جاتے ہیں۔ 
کوئٹہ، ہرنائی، بولان اور دکی سمیت دیگر بلوچستان کے اضلاع میں کوئلے کی کان کے حادثات معمول ہیں۔ محکمہ معدنیات کے مطابق سالانہ اوسطاً 100 سے زائد کانکن حادثات میں جان کی بازی ہارتے ہیں۔ 
کوئٹہ میں کانکنوں کی تنظیم کے رہنما لالہ سلطان کا کہنا ہے کہ ان حادثات کی بڑی وجہ کان مالکان اور ان کی جانب سے مقرر کردہ ٹھیکیداروں کی بے رحمی ہے جو پیسوں کی بچت کی خاطر کانوں کے اندر حفاظتی انتظامات پر بالکل توجہ نہیں دیتے۔ 
ان کے بقول مزدوروں کی زندگی کا تحفظ کسی کی ترجیح نہیں۔

حادثے کے بعد محکمے نے کان کو بند کر کے انکوائری کے احکامات جاری کیے ہیں۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

’محکمہ معدنیات ، مائنز انسپکٹریٹ اور دیگر متعلقہ محکمے بھی آکوپیشنل سیفٹی اینڈ ہیلتھ (او ایس ایچ) یعنی پیشہ ورانہ سلامتی و صحت کے قانون پر  عملدرآمد کرانے میں ناکام ہیں۔ کانوں کے اندر ضروری آلات اور حفاظتی انتظامات کے بغیر کانکنوں کو کان کے اندر اتارا جاتا ہے جس سے آئے روز حادثات پیش آتے ہیں۔‘
مائنز انسپکٹر محمد عاطف کے مطابق متاثرہ کوئلہ کان کی حیثیت ابھی تک معلوم نہیں کہ قانونی ہے یا غیر قانونی۔ یہ اس علاقے میں نئی کان کھودی گئی ہے اور لائسنس حاصل کیے بغیر کانکنی کرنے پر محکمے نے کان مالک کو چار پانچ ماہ پہلے نوٹس بھی دیا تھا۔ 
ان کا کہنا تھا کہ کان کو بند کر کے تحقیقات کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ 

شیئر: