Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انسانی سمگلنگ میں اضافہ، بہتر مستقبل کے خواہشمند پاکستانی منزل تک نہ پہنچ سکے

پاکستان میں انسانی سمگلنگ روکنے کے لیے دو نئے قوانین متعارف کرائے گئے ہیں۔ فوٹو: پکسا بے
پاکستان سے ہر سال ہزاروں نوجوان یورپ میں سہانے مستقبل کا خواب لیے انسانی سمگلروں کے ساتھ رابطہ کرتے ہیں، ان میں سے کچھ موت کی گھاٹیوں سے گزر کر یورپ پہنچنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں جبکہ کچھ راستے میں ہی جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔
ایسا ہی ایک واقعہ کراچی سے تعلق رکھنے والے دو افراد کے ساتھ پیش آیا جو کوئٹہ کے راستے اٹلی جانے کے لیے گھر سے نکلے تھے لیکن چند ہی دنوں بعد گھر والوں کو ان کی انتہائی دردناک ویڈیو موصول ہوئی۔ 
37 سالہ افتخار احمد سومرو سے رابطہ نہ ہونے اور بعد ازاں زنجیروں میں جکڑے ہوئے ایک ویڈیو موصول ہوئی تو ان کے بھائی خالد حسین سومرو نے ضلع جنوبی کے علاقے لیاری بغدادی تھانے میں اغوا کا مقدمہ درج کروایا۔ 
خالد حسین سومرو نے مؤقف اپنایا کہ بھائی اور ان کا دوست طاہر احمد افضل گھر سے براستہ کوئٹہ، اٹلی جانے کے لیے نکلے تھے اور انہیں کسی نے اغواء کر لیا ہے۔
پولیس نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’خالد حسین کے مطابق 10 جنوری 2022 کو ان کے بھائی نے اطلاع دی کہ وہ اور ان کا دوست کوئٹہ پہنچ گئے ہیں۔ جبکہ 13 جنوری کو ایران پہنچنے کی اطلاع دی اور بتایا کہ دو دن بعد سمندر کے راستے مچھلی پکڑنے والے ٹرالر پر اٹلی جائیں گے۔ 16 جنوری کو اختر حسین کے موبائل پر ایک ویڈیو موصول ہوئی جس میں ان کے بھائی اور دوست پر تشدد کیا جا رہا ہے اور 30 لاکھ روپے کا مطالبہ کیا ہے۔‘
پولیس کے مطابق ویڈیوز سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ دونوں افراد اٹلی نہیں پہنچ سکے اور اغوا کاروں کے پاس ہی ہیں۔
ایف آئی اے انسداد انسانی سمگلنگ سرکل کے ایڈیشنل ڈائریکٹر ڈاکٹر محمد فاروق احمد نے بتایا کہ مقدمہ ایف آئی اے کے پاس درج کروا دیا گیا ہے جو معاملے کے تمام  پہلوؤں کی تحقیقات کر رہا ہے۔

نومبر 2021 میں متعدد پاکستانیوں کو غیر قانونی طریقے سے سپین لے جایا گیا تھا۔ فائل فوٹو

خیال رہے کہ پاکستان سے سالانہ ہزاروں افراد اپنے بہتر معاشی مستقبل کے لیے غیر قانونی طریقوں سے امریکہ، یورپ سمیت افریقی ممالک جانے کی کوشش کرتے ہیں۔
قانونی طریقے سے بیرون ملک بھیجنے والے ٹریول کنسلٹنٹ محمد سلیم (فرضی نام) نے اردو نیوز کو بتایا کہ گزشتہ دو سالوں میں ملک سے باہر جانے کے خواہش مند افراد کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے۔
’تین مہینے میں بنائے جانے والے گروپ میں 20 سے 25 افراد ہوا کرتے تھے لیکن اب ماہانہ 50 سے 60 افراد رابطہ کر رہے ہیں۔‘
پاکستان سے اکثر لوگ بہتر معاش کی غرض سے اٹلی، فرانس، جرمنی، نیدر لینڈ اور امریکہ جانا چاہتے ہیں۔
محمد سلیم نے واضح کیا کہ ان کی ذمہ داری صرف بیرون ممالک تک پہنچانے کی ہے جبکہ شہریت حاصل کرنے میں کوئی مدد فراہم نہیں کرتے۔
’کچھ عرصے سے سرحدوں پر زیادہ سختی ہو گئی ہے جس کی وجہ سے مشکلات کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔‘
وفاقی تحقیقاتی ادارہ انسداد انسانی سمگلنگ کراچی سے حاصل کردہ اعداد و شمار کے مطابق سال 2020 سے 2022 تک 16 مقدمات رجسٹرڈ ہوئے ہیں جو زیر سماعت ہیں۔ ان میں بیشتر افراد پاکستان سے بہتر زندگی کی تلاش میں یورپی ممالک جانا چاہتے تھے۔

اکثر افراد بہتر معاشی مستقبل کے لیے غیر قانونی راستے اپناتے ہیں۔ فوٹو گیٹی

جامعہ کراچی میں شعبہ کریمنالوجی سے وابستہ ڈاکٹر نائمہ سعید کے مطابق انسانی سمگلنگ ایک پیچیدہ معاشرتی مسئلہ ہے جس میں کئی عوامل کا عمل دخل ہے اور پاکستان جیسے ملک میں اس کی ایک اہم وجہ تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی، معاشی سست روی ہے۔ ان وجوہات کی بنیاد پر انسانی سمگلنگ مزید آسان ہوتی جا رہی ہے۔ 
پاکستان نے مسئلے کی سنگینی کے پیش نظر 2018 ہی میں انسانی سمگلنگ کی روک تھام کے لیے دو نئے قوانین متعارف کرائے ہیں جن میں سے ایک انسداد مہاجرین ایکٹ 2018، جبکہ دوسرا انسداد انسانی سمگلنگ ایکٹ 2018 ہے۔ سال 2020 میں اس کو مزید بہترکیا گیا تھا۔
ان دو قوانین کے علاوہ پاسپورٹ ایکٹ 1974، ایمیگریشن آرڈیننس 1979، فارنرز ایکٹ 1946، انسداد انسانی سمگلنگ ایکٹ 2002 اور دیگر متعلقہ قوانین بھی اس ضمن میں موجود ہیں۔   

شیئر: