لکھنؤ کے نوابوں کی شہرت بہت زیادہ ہوتی تھی۔ فوٹو سکرول
تیرے کوچہ میں آ کے لگتا ہے
جیسے مفلس نواب ہو جائے
شاعر خوش قسمت ہے کہ اُسے کوچہِ جاناں میں الفت کا خزانہ مل گیا ہے، جہاں درہمِ عشق و دینارِ محبت کے تُوڑے کبھی تھوڑے نہیں پڑتے، تب ہی تو چاہت کی یہ فراوانی احساسِ نوابی کی ترجمانی کر رہی ہے۔
کبھی لکھنؤ کے نوابوں کی شہرت تھی، اب محض ٹنڈے کبابوں کا شہرہ رہ گیا ہے۔ شائد اسی لیے عوام غلط طور پر ’نواب‘ کا تلفظ بروزن ’کباب‘ کرتے ہیں، جب کہ یہ لفظ واؤ پر تشدید کے ساتھ ’نَوّاب‘ ہے۔
’نَوّاب‘ کو ’نائب‘ سے نسبت ہے، اور یہ مبالغہ کا صیغہ ہے، یوں اس کے لفظی معنی ’بہت نیابت کرنے والا‘ اور مجازی معنی ’نائب السلطان‘ کے ہیں۔
پھر بادشاہ کی نیابت کی رعایت سے شہزادہ، وزیر، حاکمِ صوبہ، نگرانِ ضلع، سردارِ لشکر اور سرکاری عامل و ناظم بھی ’نَوّاب‘ کی تعریف میں داخل ہیں۔
چوں کہ ’نَوّاب‘ بااختیار و صاحب ثروت ہوتا تھا یوں اس نسبت سے خاندانی امیر اور بڑے جاگیردار کو بھی ’نَوّاب‘ پکارا گیا، پھر دولت کی اسی ریل پیل کی رعایت سے آج بھی نو دولتیے، شیخی خورے اور گُل چھڑے اڑانے والے کو مجازاً ’نَوَّاب‘ کہا جاتا ہے۔
برسبیل تذکرہ عرض ہے کہ برطانوی ہند میں پانچ سو سے زیادہ دیسی ریاستیں موجود تھیں، جن کے مسلم حکمران ’نَوّاب‘ کہلاتے تھے۔ اس کُلیے کا اطلاق ریاست حیدر آباد دکن، ریاستِ محمود آباد اور ریاست چترال کے فرما رواؤں پر نہیں ہوتا کہ یہ حکمران بالترتیب نظام دکن، راجا صاحب محمود آباد اور مہترِ چترال کہلاتے تھے۔
یہاں تک پہنچ کر اب ہم اس لفظ کی اصل سے بحث کریں گے، غالباً یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ ’اصل‘ کا لفظی مطلب ’جڑ‘ ہے جو ’فروع‘ یعنی شاخ کی ضد ہے۔
عربی زبان میں کسی چیز کا بار بار لوٹ کر آنا ’اَلنّوْبُ‘ کہلاتا ہے، پھر اس رعایت سے شہد کی مکھی کو ’نحل‘ کےعلاوہ ’نَوْب‘ بھی کہا جاتا ہے کیونکہ وہ اپنی قرار گاہ کی طرف پلٹ کر جاتی ہے۔
اسی پلٹنے ہی کی نسبت سے اللہ کی طرف رجوع کرنا ’اَنَابَ‘ کہلاتا ہے، پھر اسی ’اَنَابَ‘ سے لفظ انابیب اور منیب ہیں، ان دونوں الفاظ کے معنی میں ’حق کی طرف پھرنے، پلٹنے اور رجوع کرنے‘ کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ عربی ہی میں سفیر کو بھی ’نوب‘ اسی لیے کہتے ہیں کہ وہ پلٹ کر اپنے بھیجنے والے کے پاس آتا ہے۔
یہاں تک پہنچ کر آپ سوال کر سکتے ہیں کہ جب ’اناب‘ کے معنی میں پلٹنے کا مفہوم پوشیدہ ہے تو پھر نائب یا نواب میں اس معنی کا اثر کہاں موجود ہے؟
عرض ہے کہ بادشاہ یا کوئی بھی صاحب اختیار جب کسی کو اپنا قائم مقام بناتا یا عامل بنا کر بھیجتا ہے، تو اُس بھیجے گئے شخص اور اس کی جانب سے نبھائے جانے والے فرائض کی مراجعت انجام کار بادشاہ ہی کی طرف ہوتی ہے، غالباً اسی مراجعت کی رعایت سے حاکمِ صوبہ یا نگرانِ ضلع وغیرہ نائب و نواب کہلاتا ہے۔
جسے ہم انگریزی میں ’ممبر آف پارلیمنٹ‘ کہتے ہیں وہ بھی عربی میں ’نَائِبٌ في البَرْلِمَان‘ ہے، وجہ یہی ہے کہ وہ پارلیمنٹ میں اپنے حلقے کے عوام کی نیابت کر رہا ہوتا ہے۔
نوابی سلسلے کا ایک لفظ ’نُوَّاب‘ بھی ہے، یعنی ’نَوّاب‘ کے بر خلاف ’نُوَّاب‘ کا حرف اول پیش کے ساتھ ہے۔ عام نائبین کے مقابلے میں زیادہ اثر و رسوخ رکھنے والے بادشاہ کے قائم مقام نائبینِ خاص میں سے ہر ایک کو ’نُوَّاب‘ کہا جاتا ہے۔ فی زمانہ رکن پارلمنٹ کو ’عُضْوٌ فی مَجْلِسِ النُوَّاب‘ بھی کہا جاتا ہے۔
اس سلسلہ کلام کے آغاز میں ضمناً لفظ ’وزیر اور مبالغہ‘ آیا ہے۔ یہ دونوں الفاظ بھی عربی الاصل ہیں اور اردو میں عام برتے جاتے ہیں۔
’وزیر‘ کو لفظ ’اَلْوِزْرُ‘ سے نسبت ہے، جب کہ ’اَلْوِزْرُ‘ کے معنی بارگراں یا بھاری بوجھ کے ہیں، پھر اس رعایت سے گناہوں کا بوجھ بھی ’وِزْرُ‘ کہلاتا ہے اور گناہگار ’وازر‘ پکارا جاتا ہے۔
آپ پوچھ سکتے ہیں کہ ’وزیر‘ تو مزے کرتا ہے، اس کے آگے پیچھے خدام و حشام کی فوج ہوتی ہے، تو بھلا اُس کا بوجھ اٹھانے سے کیا تعلق ہے؟
اس جواب تک پہنچنے کے لیے آپ ’وزیر‘ کے کردار پر غور کریں تو بات باآسانی سمجھ آجائے گی کہ اپنے صائب مشوروں اور حُسنِ تدبیر سے بادشاہ کا بوجھ ہلکا کرنے والا ’وزیر‘ کیوں کہلاتا ہے۔
بھلے وقتوں میں وزیر تاحیات ہی نہیں، نسل در النسل بھی ہوتے تھے، مگر اب حکومت بدلتی ہے تو وزیر بھی بدل جاتے ہیں، مگر کچھ وزیر بے اختیار ہوجانے پر بھی بااختیار ہونے کا رعب جماتے ہیں اور بقولِ دلاور فگار دھڑلے سے کہتے ہیں:
دانشور و ادیب و مدیر و صحافیو!
میرے لیے لکھو کہ میں سابق وزیر ہوں
اب ’مبالغہ‘ کی بات کرتے ہیں۔ اس لفظ کی اصل ’بلغ‘ ہے، اور اس مادے سے بننے والے تمام الفاظ میں ’پہنچنے‘ کا مفہوم پایا جاتا ہے۔
جس طرح رُت گدرانے اور پھول کے پھل بن جانے کے مرحلے میں داخل ہوجانے کو ’بُلُوغاً و بَلَاغاً الشجَرُ‘ کہتے ہیں، ایسے ہی ’بلوغت یا سنِ بلوغ‘ عمر کی اُس حد کو کہتے ہیں جہاں پہنچنے پر بچہ ’بڑا‘ ہو کر شناختی کارڈ کے لیے درخواست دینے کا اہل ہو جاتا ہے۔
بات، خیالات اور پیغام پہنچانا ’تبلیغ‘ اور ’ابلاغ‘ کہلاتا ہے، اور یہ دونوں الالفاظ بھی اردو میں عام استعمال ہوتے ہیں۔ اس ’پہنچنے اور پہنچانے‘ کے سلسلے میں تین الفاظ ایسے ہیں جو ہم صورت ہونے کی وجہ سے ہمیشہ الجھن کا باعث رہے ہیں۔ یہ الفاظ ’مَبلَغ، مُبلَِغ اور مُبَلِّغ‘ ہیں۔
’مَبلَغ‘ کے معنی میں حد، انتہا، رسائی،پہنچ، کمال، معیار، مقدار اور پونجی داخل ہیں، جب کہ ’مُبلَِغ‘ کے مفہوم میں کامل اور کھرا شامل ہیں یوں مجازاً روپیہ پیسہ بھی ’مُبلَِغ‘ کہلاتا ہے۔ جہاں تک ’مُبَلِّغ‘ کی بات ہے تو اس کے معنی ’تبلیغ کرنے اور پہنچانے والا‘ کے ہیں۔