پاکستان میں 22 کروڑ ویگو ڈالے ہیں ہی نہیں: عمار مسعود کا کالم
پاکستان میں 22 کروڑ ویگو ڈالے ہیں ہی نہیں: عمار مسعود کا کالم
جمعہ 18 فروری 2022 6:06
عمار مسعود
تحریک انصاف کی صفوں میں بیٹھے شعبدہ بازوں میں عقل ہوتی تو وہ ان باتوں کو اتنا بڑا ایشو ہی نہ بننے دیتے (فائل فوٹو: پی ایم آفس)
موجودہ حکومت کے لیے کچھ موضوعات بہت حساس واقع ہوئے ہیں۔ ان موضوعات پر گفتگو کرنے والوں کو صرف دشنام کا ہی نشانہ نہیں بنایا جاتا بلکہ اب تو گرفتاریوں کا دور بھی جوبن پر ہے۔
عقوبت خانوں کی بہاریں لوٹ آنے کا موسم ہے۔ ذرا کسی نے مذکورہ موضوعات کا حوالہ دیا وہیں سے ’دہشت گردی‘ کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ کبھی ایف آئی اے اور نیب کو ملازم کی طرح استعمال کیا جاتا ہے۔ تو کبھی پیمرا کسی غلام کی طرح حاکم وقت کی ہر خدمت بجا لانے کے لیے حاضر ہوجاتا ہے۔ کبھی ان مقاصد کے لیے پولیس کا استعمال کیا جاتا ہے۔
وزیراعظم صاحب کو شاید اس بات کا علم نہیں کہ اس قوم کی نفسیات عجیب ہے، انہیں ذرا سی بھِنک پڑ جائے کہ فلاں شخص کسی بات سے چِڑتا ہے تو بس پھر سارا ملک ہی وہی بات کہنے پر مصر نظر آئے گا۔ اس قوم کو حکومت وقت نے نیا شغل عطا کردیا ہے۔
بہت سے لوگ ٹاک شوز میں وہی بات کررہے ہیں ’جو بات ان کو بہت ناگوار گزرتی ہے۔‘ کوئی سوشل میڈیا پر ان موضوعات کو لے کر بیٹھ جاتا ہے اور کسی کے اختیار میں یہ بھی نہیں ہے تو وہ دور سے ’اوئے اوئے‘ کا نعرہ لگا کر نکل جاتا ہے۔
تحریک انصاف کی صفوں میں بیٹھے شعبدہ بازوں میں عقل ہوتی تو وہ ان باتوں کو اتنا بڑا ایشو ہی نہ بننے دیتے، لیکن اب تیر کمان سے نکل چکا۔ گرفتاریاں ہوچکیں۔ سوشل میڈیا ٹرینڈز بن چکے۔ وزیرِ مواصلات مراد سعید کی کارکردگی موضوع گفتگو بن چکی۔ مہنگائی غریب کی زندگی کو ڈس چکی۔ اب ان موضوعات پر انتقامی کارروائیاں نہیں صرف خاموشی ہی تحریک انصاف کا بھرم رکھ سکتی ہے۔
خاتون اول کے حوالے سے وزیراعظم کی حساسیت سمجھی جاسکتی ہے۔ کوئی شخص بھی نہیں چاہتا کہ اس کے گھر کی بات بازار میں ہو۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا کسی کی بھی عزت، ناموس، غیرت کو سربازار نیلام کیا جاسکتا ہے؟ اس کے کردار، قابلیت، اہلیت اور جنس کا تمسخر اُڑایا جاسکتا ہے؟
اس روایت میں حصہ ڈالنے والوں میں خود تحریکِ انصاف کے لوگ یا اتحادی بھی ہیں۔ شیخ رشید، فیاض چوہان، فردوس عاشق اعوان، فواد چوہدری، علی امین گنڈاپور کی زبان جو پھول بکھیرتی رہی ہے وہ سب کو یاد ہے۔ حتیٰ کہ اپوزیشن وزیرِاعظم پر بھی الزام لگاتی ہے کہ وہ مخالفین کے بارے میں بات کرتے ہوئے بنیادی اخلاقیات تک کو فراموش کردیتے ہیں۔
وزیرِاعظم کے ساتھیوں کے بہت سے بیانات آج تک کیمرے کی آنکھ میں محفوظ ہیں۔ آلودہ زبان کی زد میں دوسری سیاسی اور صحافی خواتین بھی آئی ہیں اور ان کے بارے جو طرز عمل رہا ہے وہ کسی سے بھی ڈھکا چھپا نہیں رہا۔
کیا کیا تہمت نہیں لگائی گئی مریم نواز پر۔ کیا کیا الزام نہیں لگایا گیا خاتون صحافیوں پر، کس کس طرح کی تضحیک نہیں کی خاتون سیاسی کارکنوں کی۔ کون کون سی گالی ہے جو ان خواتین کے خلاف سوشل میڈیا ٹرینڈز کا حصہ نہیں رہی۔
اس وقت نہ کوئی تردید آئی نہ کسی نے اس عہد دشنام کا نوٹس لیا۔ بلکہ بقولِ اپوزیشن اس طرح کی نفرت انگیز گفتگو کو ہلہ شیری دی گئی اور ٹرولز اور سوشل میڈیا ٹرینڈز کی حوصلہ افزائی اور سرپرستی ہوئی۔
یہ سب تکلیف دہ باتیں ہیں مگر ان میں سب سے اذیت ناک رویہ وہ ہے جو تحریک انصاف کے کچھ ترجمانوں، چند مشیروں، اور کچھ وزرا نے بیگم کلثوم نواز اور نواز شریف کی والدہ کی علالت اور انتقال سے متعلق روا رکھا۔ بیگم کلثوم نواز کی علالت کو کئی ٹاک شوز میں ڈرامہ قرار دیا گیا۔ نواز شریف کی بیرون ملک روانگی کا بہانہ قرار دیا گیا۔
ہر ٹاک شو میں ایک جاں بلب مریضہ کی رپورٹس لہرائی گئیں۔ ایک متوالا جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ تحریک انصاف سے ہے، مریضہ کے کمرے میں بھی گھس گیا یہ دیکھنے کے لیے کہ تین مرتبہ کے وزیراعظم کی اہلیہ، ایک خاتون، ایک انسان حیات ہیں اور کیا جسد میں کچھ سانسیں باقی ہیں؟
بات صرف اتنی ہے کہ اگر خواتین کی حرمت کا سلسلہ کسی ایک شخص، خاندان اور جماعت پر موقوف نہیں ہونا چاہیے۔ ایک اور بات کہ آپ اپنے خلاف ہر بات کرنے والے کو گرفتار نہیں کرسکتے اس لیے کہ پاکستان میں 22 کروڑ ’ویگو ڈالے‘ ہی نہیں ہیں۔