Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

روس یوکرین تنازع: تیل کی قیمتیں سات برس میں پہلی بار 100 ڈالر سے زیادہ

سات برس میں پہلی بار تیل کی قیمتیں ایک سو ڈالر سے تجاوز کر گئیں۔ فوٹو: اے ایف پی
روس کے صدر ولادیمر پوتن کے یوکرین میں ’فوجی آپریشن‘ کے اعلان کے نتیجے میں سال 2014 کے بعد سے پہلی بار تیل کی قیمتیں ایک سو ڈالر سے اوپر چلی گئی ہیں۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق جمعرات کو مشرقی یورپ میں بھرپور کشیدگی کے خدشات کے پیش نظر برینٹ خام تیل کی قیمت 100.04 ڈالر تک پہنچ گئی ہے، جبکہ ویسٹ ٹیکساس انٹرمیڈیٹ کی قیمت 95.54 ڈالر تک پہنچ گئی۔
تیل کی قیمتوں میں اضافہ اس وقت دیکھنے میں آیا جب ولادیمر پوتن نے جمعرات کی صبح اچانک یوکرین پر حملے کے فیصلے کا اعلان کیا۔
صدر پوتن کے اعلان کے بعد روسی ربل کے مقابلے میں ڈالر کی قدر میں چھ فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔
دنیا بھر کی سٹاک مارکیٹس کا جائزہ لیا جائے تو ہانگ کانگ، سڈنی، ممبئی اور سیویل کی سٹاک مارکیٹ میں تین فیصد جبکہ ٹوکیو، سنگاپور، تائپی اور واشنگٹن میں دو فیصد کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ جبکہ شنگھائی، منیلا، جکارتہ اور بینکاک میں بڑی سطح پر نقصان دیکھنے میں آیا ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق جمعرات کو ایک سال سے زائد کے عرصے میں پہلی بار سونے کی قیمتوں میں دو فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا۔
ایک سینیئر مارکیٹ تجزیہ کار جیفری ہیلی کا کہنا ہے کہ امریکی ڈالر کے ساتھ ساتھ سونے کی قدر بھر برقرار رہے گی تاہم سونے کی قیمتیں تاریخ کی بلند ترین سطح تک جا سکتی ہیں۔ 
خطے میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کے خطرے نے اہم اشیا کی سپلائی کے خدشات کو جنم دے دیا ہے جن میں گندم اور دھاتوں کی ترسیل شامل ہے۔
اشیا کی سپلائی متاثر ہونے کا خطرہ ایسے وقت میں پیدا ہوا ہے جب حالیہ کچھ عرصے میں ہی کورونا سے متاثر ہونے والی عالمی معیشت کی بحالی کی کچھ امید پیدا ہوئی تھی۔
نیشنل آسٹریلیا بینک کے ایک اہلکار ٹپاس سٹرک لینڈ کا کہنا ہے کہ یورپ میں توانائی اور دیگر اشیا کی طلب متاثر ہو سکتی ہے جبکہ دنیا کے دیگر ممالک کی سپلائی چِین کو زیادہ بڑا جھٹکا لگ سکتا ہے۔ 

شیئر: