تحریکِ عدم اعتماد تک پہنچ کر میچ پھنس چکا: ماریہ میمن کا کالم
تحریکِ عدم اعتماد تک پہنچ کر میچ پھنس چکا: ماریہ میمن کا کالم
پیر 7 مارچ 2022 5:35
ماریہ میمن
جہانگیر ترین گروپ تو سامنے آچکا ہے مزید بھی کئی غیرمطمئن لیڈر صفوں میں موجود ہیں (فوٹو: ٹوئٹر)
حکومت اور اپوزیشن کے درمیان میچ اب فیصلہ کن موڑ میں داخل ہو چکا ہے۔ اپوزیشن نے کئی حربے اور کئی طریقے آزمائے، کبھی جلسے اور کبھی مارچ، کبھی استعفے کی دھمکی اور کبھی بیک ڈور سیاست۔
دوسری طرف حکومت ابھی تک اپنے آپ کو کسی نہ کسی طرح قائم رکھے ہوئے ہیں۔
اپوزیشن کی کامیابی اگر کچھ کہی جا سکتی ہے تو وہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنے آپ کو سیاسی طور سے زندہ رکھا ہے۔ ن لیگ کی پوزیشن پنجاب میں مضبوط ہے، سندھ میں پیپلز پارٹی کا کوئی مقابل ابھی تک سامنے نہیں آیا اور مولانا فضل الرحمان تک نے اپنے سیاسی نقصانات کو کم کرکے واپسی کا سفر شروع کیا ہے۔ گویا حکومت قائم تو ہے مگر اس کا استحکام مشروط ہے، اپوزیشن بھی ٹف ٹائم تو دے رہی ہے مگر آگے کا روڈ میپ واضح نہیں ہے۔
سوال یہ ہے کہ آگے کس کا پلہ بھاری ہوگا؟ تحریک عدم اعتماد تک پہنچ کے میچ پھنس گیا ہے۔ اس سے پہلے یوسف رضا گیلانی کے سینیٹ انتخاب کو چھوڑ کر حکومت نے اسمبلی میں اپنی اکثریت ثابت کی ہے مگر اس بار خطرہ واضح ہے۔
حلیفوں نے بھی کچھ آنکھیں دکھانا شروع کر دی ہیں۔ اسی خطرے نے وزیراعظم کو ق لیگ کے گھر تک جانے پر مجبور کیا ہے۔ ایم کیو ایم کے پاس جانے کی بھی خبریں ہیں۔ پارٹی کے اندر بھی بڑے عرصے سے اختلافات کی خبریں گردش کر رہی ہیں۔ کئی لیڈر ساتھ چھوڑ چکے اور کئی درون پردہ تحفظات رکھتے ہیں۔
جہانگیر ترین گروپ تو سامنے آچکا ہے مزید بھی کئی غیرمطمئن لیڈر صفوں میں موجود ہیں۔ کیا یہ لوگ سامنے آ کر کھڑے ہوں گے یا پھر اپنا کچھ سیاسی فائدہ لے کر اگلے الیکشن کا انتظار کریں گے؟
اپوزیشن کے لیے دوہرے مسائل ہیں۔ سب سے پہلے ترجیحات اور اہداف کا فرق ہے۔ پیپلز پارٹی پنجاب میں بھی تحریک عدم اعتماد لا کر پرویز الٰہی کو وزیراعلیٰ بنانا چاہتی ہے۔ ن لیگ پنجاب سے زیادہ وفاق میں دلچسپی رکھتی ہے اور ق لیگ کی حمایت کی متمنی ہے مگر وزارت اعلیٰ کا تاج اس کے سر پر نہیں رکھنا چاہتی۔ ن لیگ فوری انتخابات کی بھی خواہاں ہے اور پیپلزپارٹی ایک مخلوط حکومت چلانا چاہتی ہے۔ بظاہر تو شہباز شریف ہی وزیر اعظم کے امیدوار ہیں مگر ابھی تک اس کا واضح اعلان نہیں ہوا۔ ن لیگ کے اندر پیپلز پارٹی کے ساتھ مخلوط حکومت کے بارے میں بھی تحفظات ہیں اور ساتھ یہ بھی احساس کے ان کو مختصر دور کے لیے حکومت مل بھی جائے تو بھی وہ ڈیلیور نہیں کر سکیں گے۔
تحریک عدم اعتماد ابھی تک کبھی ہاں اور کبھی ناں کے درمیان معلق ہے۔ اتحادی بھی کبھی ہاں کرتے ہیں اور کبھی ناں۔ پی ٹی آئی کے اندر سے بھی کبھی ہاں ہے اور کبھی ناں۔ اپوزیشن کی طرف سے عدم اعتماد کو ہاں ہے مگر اس کے بعد اسمبلیوں کے مستقبل کا فیصلہ سامنے نہیں آیا۔ اس ضمن میں پہلی دفعہ امپائر کا بھی ذکر ابھی تک سامنے نہیں آیا اور ڈرائنگ روم کی سیاست اور جوڑ توڑ اپنے عروج پر ہے۔ ملاقاتوں کے دور پر دور چل رہے ہیں اور ہر کوئی ہر ایک سے مل رہا ہے، کچھ سامنے اور کچھ پس پردہ۔
تحریک عدم اعتماد حکومت کے لیے ایک سیریس چیلنج تو ہے مگر اصل چیلنج اگلے انتخابات ہیں۔ وزیراعظم نے بھی عوامی جلسوں کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ پیپلز پارٹی کا مارچ بھی در حقیقت اپنا انتخابی اثر بڑھانے اور بلاول کو بطور قومی لیڈر لانچ کرنے کی کوشش ہے۔ ن لیگ تو ہے ہی الیکشن موڈ میں اور ان کی نظریں ہیں اگلی حکومت پر۔ یہی بظاہر اپوزیشن کا اصل گیم پلان ہے۔
سوال یہ ہے کہ تحریک عدم اعتماد ناکام ہونے کی صورت میں اپوزیشن کو کیا نقصان ہوگا اور تحریک عدم اعتماد ناکام ہونے سے بھی حکومت کی سیاسی پوزیشن انتخابی نقطہ نظر سے کتنی بہتر ہو گی؟ اپوزیشن کے پلان کے مطابق ان کے لیے دونوں طرف فائدہ ہے۔ پانچ سال پورے کرنے کے لیے پی ٹی آئی کو جو سمجھوتے کرنے پڑیں گے، ان میں اپوزیشن کو کئی حوالوں سے ریلیف ہی ملتا نظر آتا ہے۔ یہ ریلیف سیاسی بھی ہے اور قانونی بھی۔ اسی لیے عدم اعتماد کا نتیجہ کچھ بھی ہو کم از کم ن لیگ انتخابات سے کم پر راضی ہوتی نظر نہیں آتی۔
انتخابات کے لیے وہ ایک ڈیڑھ سال انتظار کرنے کے لیے بھی تیار ہے۔ ہاں اگر ان کو انتخابات براستہ عدم اعتماد مل جائیں تو یہ ان کے لیے اضافی اور فوری کامیابی ہو گی۔