Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

قومی اسمبلی کا اجلاس: ’آپ کو جو لے کر آئے وہی لے کر گئے‘

جمعرات کو جب پاکستان کی قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا تو اپوزیشن کی خواہش تھی کہ وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ ہو جائے کیونکہ وہ تحریک کی کامیابی کے لیے درکار ارکان کو پارلیمنٹ ہاؤس لے کر آئی تھی۔
پارلیمنٹ ہاؤس کی راہداریوں میں ہر طرف اپوزیشن ارکان کا راج تھا۔ تھوڑی تھوڑی دیر بعد میڈیا کے ارکان کسی نہ کسی رکن اسمبلی کو گھیر لیتے تھے اور اس سے موبائل کیمروں پر بات چیت شروع کر دیتے تھے۔
بلاول بھٹو، خواجہ آصف، خواجہ سعد رفیق اور دیگر بہت جوش و خروش سے میڈیا کے سوالات کا جواب دے رہے تھے اور سب کا کہنا تھا کہ ’اپوزیشن اس مرحلے پر وزیراعظم عمران خان کے استعفی کے علاوہ کسی بات پر راضی نہیں ہوگی۔‘
آج کے اجلاس کی خاص بات تھی کہ حال ہی میں حکومت کو چھوڑ کر اپوزیشن اتحاد میں شامل ہونے والی بلوچستان عوامی پارٹی اور ایم کیو ایم کے ارکان کے علاوہ منحرف ارکان کو بھی پارلیمنٹ ہاؤس خصوصی طور پر لایا گیا تھا۔
تاہم اپوزیشن کی پارلیمانی پارٹی اجلاس میں وہ نہیں بیٹھے بلکہ پیپلز پارٹی کے سعید غنی اور مسلم لیگ ن کے خواجہ سعد رفیق ان ارکان کو اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کے دفتر میں لے گئے تاکہ انہیں تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کی صورت میں فوری طور پر اسمبلی ہال پہنچایا جا سکے۔
یاد رہے کہ وزیراعظم عمران خان نے اپنی جماعت پی ٹی آئی کے ارکان کو ایک خط کے ذریعے ووٹنگ کے عمل میں شریک ہونے سے منع کر رکھا ہے۔
اجلاس تقریبا سوا گھنٹہ تاخیر کے بعد شروع ہوا تو سپیکر اسد قیصر کے بجائے ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کرسی صدارت پر براجمان ہوئے اور تلاوت، نعت اور قومی ترانے کے بعد کاروائی کا آغاز کیا۔
اجلاس میں اس وقت حکومتی جماعت کے صرف 60 کے قریب ارکان موجود تھے جبکہ اپوزیشن بینچوں پر 170 سے زائد ارکان نظر آ رہے تھے بعد میں چند مزید اپوزیشن ارکان بھی ایوان میں داخل ہو گئے۔

اجلاس میں حکومتی ارکان اپوزیشن کی طرح جارحانہ رویہ رکھے ہوئے تھے اور اپوزیشن ارکان حکومت کی طرح دفاعی پوزیشن پر تھے (فوٹو: اردو نیوز)

وزیراعظم کے مشیر برائے پارلیمانی امور بابر اعوان نے ایوان کو نیشنل سکیورٹی کمیٹی کے اجلاس کے لیے استعمال کرنے کی تحریک پیش کی تو اپوزیشن ارکان نے اسے کثرت رائے سے مسترد کر دیا اور یوں حکومت کو اس سیشن میں پہلی شکست اٹھانا پڑی جس پر ایوان میں زور دار ڈیسک بجائے گئے۔
اس موقع پر اتحادی پارٹیوں کے ارکان کو اپوزیشن بینچوں پر دیکھ کر حکومتی ارکان سے رہا نہ گیا اور انہوں نے ’لوٹا لوٹا‘ اور ’قوم کے غدار‘ کے نعرے لگانے شروع کر دیا۔
بلوچستان عوامی پارٹی کے رہنما خالد مگسی اس پر مشتعل ہو کر حکومتی بینچ کی طرف جارحانہ انداز میں بڑھے اور وزیر دفاع پرویز خٹک کے قریب آ کر بولے کہ ’آپ لوگوں کے اسی رویے کی وجہ سے ہم چھوڑ گئے ہیں۔‘
پرویز خٹک نے کھڑے ہو کر انہیں سمجھایا۔ اس دوران خواجہ آصف سمیت چند حکومتی ارکان خالد مگسی کو سمجھا بُجھا کر واپس لے گئے۔
اجلاس میں حکومتی ارکان اپوزیشن کی طرح جارحانہ رویہ رکھے ہوئے تھے اور اپوزیشن ارکان حکومت کی طرح دفاعی پوزیشن پر تھے۔
ڈپٹی سپیکر نے وقفہ سوالات شروع کیا تو انہوں نے اپوزیشن ارکان کو باری باری ضمنی سوالات کی اجازت دی۔ تاہم اپوزیشن کے جس رکن کو مائیک دیا جاتا اس کا ایک ہی سوال ہوتا کہ ’سپیکر صاحب! تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ کب کرائیں گے؟‘
اپوزیشن ارکان شازیہ مری، طاہرہ اورنگزیب، مریم اورنگزیب اور شیخ روحیل اصغر سمیت سب کی طرف سے ایک ہی سوال ہونے پر ڈپٹی سپیکر تنگ آ گئے اور بولے کہ ’لگتا ہے کوئی بھی وقفہ سوالات میں سنجیدہ نہیں ہے اس لیے اجلاس اتوار کی صبح ساڑھے گیارہ بجے تک ملتوی کیا جاتا ہے۔‘
اس پر اپوزیشن ارکان نے احتجاجی آوازیں بلند کرنا شروع کر دیں۔ ڈپٹی سپیکر تو اپنی نشست سے اٹھ کر چلے گئے مگر اپوزیشن رہنما اور ارکان بدستور ایوان میں موجود رہے اور اپنی نشستوں پر براجمان ہو گئے۔

ڈپٹی سپیکر نے وفقہ سوالات شروع کیا تو انہوں نے اپوزیشن ارکان کو باری باری ضمنی سوالات کی اجازت دی (فوٹو: قومی اسمبلی)

ایوان میں عجیب منظر تھا۔ بغیر سپیکر پورا ایوان چل رہا تھا۔ کچھ دیر بعد اپوزیشن ارکان نے اپنی گنتی کی تو 172 ارکان ایوان میں موجود تھے جس پر سب نے تالیاں بجائے اور ’گو عمران گو‘ کے نعرے لگائے۔
اس موقع پر بلاول بھٹو زرداری نے دو بار شہباز شریف کو کہا کہ ’آپ اب ایوان میں وزیراعظم کی کرسی پر بیٹھ جائیں کیونکہ آپ کے پاس اکثریت ہے‘ تاہم شہباز شریف نے اس سے گریز کیا۔
اس موقع پر پیپلز پارٹی کے عبدالقادر پٹیل نے دنانیر مبین کی وائرل ویڈیو کے انداز میں سیلفی بناتے ہوئے کہا کہ ’یہ ہم ہیں، یہ ہمارے ممبران ہیں اور نیازی بھاگ چکا ہے‘ جس کے جواب کراچی سے پی ٹی آئی کے رکن فہیم خان نے کہا کہ ’یہ ہم ہیں یہ اپوزیشن کے ارکان ہیں اور یہ غدار ہیں۔‘
کچھ دیر بعد اپوزیشن ارکان ایوان سے ایک ایک کرکے چلے گئے۔
اس دوران چند حکومتی ارکان بھی اجلاس میں بیٹھے رہے۔ کراچی سے تعلق رکھنے والے پی ٹی آئی رکن عطا اللہ کے پاس خالد مگسی آئے تو کچھ دیر وہ آپس میں باتیں کرتے رہے پھر ان کی آواز اونچی ہو گئی۔
پریس گیلری میں سنائی دینے والی آواز میں سنا جا سکتا تھا کہ عطا اللہ خالد مگسی کو کہہ رہے ہیں کہ ’ہم تو کھل کر کہیں گے آپ کو جو لے کر آئے تھے وہی لے کر گئے تھے۔‘

شیئر: