Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انڈین ریاست کرناٹک میں حجاب کے بعد حلال گوشت پر بھی پابندی کا مطالبہ

انڈین میڈیا کے مطابق شموگا میں بجرنگ دل نے ایک قصاب پر حملہ بھی کیا ہے۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
انڈیا کی ریاست کرناٹک میں ’حلال‘ گوشت بیچنے والے ایک قصاب پر دائیں بازو کی جماعت بجرنگ دل کے کارکنان نے حملہ کیا ہے۔
کرناٹک کے ضلع شموگا کے سپرانٹینڈنٹ آف پولیس (ایس پی) لکشمی پرساد نے جمعے کو انڈین چینل ’این ڈی ٹی وی‘ کو بتایا کہ بجرنگ دل کے کارکنان بازار میں ’حلال‘ گوشت کے خلاف مہم چلا رہے تھے اور اس دوران ان کی ایک مسلمان قصاب سے بحث ہوئی جس کے بعد انہوں نے قصاب پر تشدد کیا۔
پولیس افسر کا کہنا تھا کہ ان کارکنان کے خلاف مقدمہ درج کرلیا گیا ہے۔ ایف آئی آر کے مطابق بجرنگ دل کے کارکنان نے قصاب سے کہا کہ وہ مرغی کے گوشت کی دکان پر غیر حلال گوشت بھی فروخت کریں۔
واضح رہے منگل کے روز بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے جنرل سیکریٹری سی ٹی روی نے حلال گوشت کی فروخت کو مسلمانوں کی طرف سے ’معاشی جہاد‘ کا نام دیا تھا۔
انڈین میڈیا آؤٹ لیٹ ’دا وائر‘ کے مطابق بھارتیہ جنتا پارٹی کے عہدیدار کا کہنا تھا کہ ’جب مسلمان ہندؤں سے گوشت نہیں خریدتے تو آپ ہندؤں سے کیوں اصرار کرتے ہیں کہ وہ مسلمانوں سے گوشت خریدیں؟‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اگر مسلمان غیر حلال گوشت کھانے پر راضی ہوتے ہیں تو ہندو بھی حلال گوشت کا استعمال کریں گے۔‘
جمعرات کے روز کرناٹک کے وزیراعلیٰ بسواراج بومئی نے بھی کہا تھا کہ ان کی حکومت کچھ گروہوں کی جانب سے حلال گوشت کی فروخت پر ’تشویش‘ کے معاملے کو دیکھے گی۔
سوشل پر وائرل ویڈیوز میں دائیں بازو کی جماعتوں کے حامیوں کو بازاروں میں حلال گوشت کے خلاف مہم چلاتے اور پرچے تقسیم کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔
انڈین صحافی عمران خان کی ایک ٹویٹ کے مطابق دائیں بازو کی جماعتوں کے حامی لوگوں کے گھروں پر جاکر پرچے تقسیم کررہے ہیں جس کا مقصد مسلمانوں کی دکانوں سے گوشت خریدنے کا بائیکاٹ کرنا ہے۔
صحافی و شاعر کوشک راج نے ایک ٹویٹ میں لکھا ’اب ہندوتوا گروپس حلال گوشت کو وجہ بنا کر مسلمانوں کو ہراساں کریں گے۔‘
واضح رہے انڈین ریاست کرناٹک پچھلے دو مہینوں سے خبروں میں ہے جس کی وجہ وہاں مسلمان طلبہ پر حجاب پہنے پر عائد کی گئی پابندی ہے۔
انڈین ذرائع ابلاغ کے مطابق حجاب پر لگائی جانے والی پابندی کی وجہ کرناٹک میں اب تک 400 سے زائد لڑکیاں سکول چھوڑ چکی ہیں۔

شیئر: