اپوزیشن رہنما کا کہنا تھا کہ ’تین اپریل کو عمران خان نے سویلین مارشل لا نافذ کیا۔ تین نومبر 2007 کو جنرل مشرف نے بھی یہی غیر آئینی حرکت کی تھی۔‘
انہوں نے کہا کہ عمران خان اور ان کے حواریوں نے آئین شکنی کی ہے۔
دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کے رہنما فواد چوہدری نے اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہم نے نگراں وزیراعظم کے لیے اپنے دو نام بھجوا دیے ہیں۔
واضح رہے کہ گذشتہ روز ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے تحریک عدم اعتماد کو غیرآئینی قرار دے دیا گیا تھا، جس کے بعد وزیراعظم عمران خان کی تجویز پر صدر مملکت نے اسمبلی تحلیل کر دی تھی۔
سیاسی صورتحال میں اس ڈرامائی تبدیلی کے بعد سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس لے لیا تھا۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں لارجر بنچ تشکیل دے دیا گیا ہے، جو پیر سے کیس کی سماعت کرے گا۔
شہباز شریف نے پریس کانفرنس سے خطاب میں قاسم سوری کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ڈپٹی سپیکر کو عمران نیازی نے آلہ کار بنایا۔
’کل سپیکر نے آناً فاناً فلور وزیر قانون کو دیا، انہوں نے ایک خط پڑھا جس کے بعد تحریک کو ووٹنگ سے ہٹا دیا۔‘
انہوں نے کہا کہ اگر کوئی اعتراض تھا تو سات سے 24 مارچ تک ان کے پاس وقت تھا۔ انہوں نے 24 مارچ کو تو تحریک کو اجازت دی۔ کل جو ہوا یہ ایک سوچ تھی۔
شہباز شریف نے کہا عمران خان اپنی قانونی اور سیاسی ناکامی برداشت نہ کر سکے اور آئین توڑ دیا۔
پریس کانفرنس سے خطاب میں پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ کل قومی اسمبلی میں آئین کو توڑا گیا۔
بلاول بھٹو نے کہا کہ وزیراعظم کو اندازہ نہیں ہے کہ ہوا کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کے آئین کا دفاع کرنا کسی ایک پارٹی نہیں بلکہ ہر ایک پاکستانی کی ذمہ داری ہے۔
بلاول بھٹو زرداری نے اعلیٰ عدلیہ سے اپیل کی کہ وہ عمران خان کے سول مارشل لا کو روکے۔
انہوں نے کہا کہ ’عدلیہ سے کہتے ہیں کہ آپ کے فیصلے سے ملک کی قسمت لکھی جائے گی۔‘
’ہمیں پھانسی چڑھانا ہے تو چڑھا دیں لیکن عدم اعتماد پر ووٹنگ کروا دیں۔‘
بلاول بھٹو زرداری کا مزید کہنا تھا کہ سپریم کورٹ اس مسئلے کے لیے فل کورٹ بینچ بنائے۔