Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عمران خان کے خلاف سازش کے ’ٹھوس ثبوت‘ موجود نہیں: نوم چومسکی

پروفیسر چومسکی ہمیشہ سے دنیا میں امریکی مداخلت کے شدید ناقد رہے ہیں۔ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
ماہر لسانیات اور بین الاقوامی سطح پر دیگر ممالک میں امریکی مداخلت کے شدید ناقد پروفیسر نوم چومسکی نے پاکستان کی سیاسی صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہیں سابق وزیراعظم عمران خان کی حکومت کے خلاف کسی بھی امریکی سازش کے شواہد نظر نہیں آ رہے۔
اتوار کو پاکستانی صحافی رمیز رحمان کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے پروفیسر نوم چومسکی نے کہا کہ پاکستان کے سابق وزیراعظم کے خلاف سازش کو مکمل طور پر رد نہیں کیا جاسکتا لیکن انہوں نے اس سازش کے کوئی ’بامعنی شواہد‘ نہیں دیکھے۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ پاکستان کے امریکہ میں سابق سفیر کے سفارتی مراسلے کو کس طرح دیکھتے ہیں تو ان کا کہنا تھا کہ وہ اسے کوئی ’ٹھوس ثبوت‘ نہیں سمجھتے۔
پاکستان میں عمران خان کے حامی اس سفارتی مراسلے کو سازش کا ٹھوس ثبوت گردان رہے ہیں۔
پروفیسر نوم چومسکی اس حوالے سے کہتے ہیں ’اس منطق کے مطابق تو پھر دنیا بھر میں تواتر سے حکومتوں کی تبدیلیوں کی منصوبہ بندی ہورہی ہے۔ یہ بے معنی ہے۔‘
خیال رہے رواں مہینے کی 10 تاریخ کو سابق وزیراعظم عمران خان کی حکومت کو ایک تحریک عدم اعتماد کے ذریعے ختم کردیا گیا تھا اور شہباز شریف دیگر اتحادی جماعتوں کی حمایت سے پاکستان کے نئے وزیراعظم منتخب ہوئے تھے۔
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان اور ان کے حامی نئی حکومت کو ’امپورٹڈ حکومت‘ قرار دیتے ہیں اور الزام لگاتے ہیں کہ ان کی حکومت کو امریکہ نے سازش کرکے ہٹایا۔
اپنے امریکی سازش کے الزام کو ثابت کرنے کے لیے وہ ایک سفارتی مراسلے کا حوالہ دیتے ہیں جس میں ان کے مطابق تحریک عدم اعتماد کا ذکر تھا۔
یہ سفارتی مراسلہ امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر اسد مجید خان کی جانب سے اسلام آباد بھیجا گیا تھا۔ اس سفارتی مراسلے کو اب تک قانونی پیچیدگیوں کے سبب منظر عام پر نہیں لایا گیا ہے۔

سابق وزیراعظم عمران خان سازش کے ثبوت کے طور پر ایک سفارتی مراسلے کا حوالہ دیتے ہیں۔ (تصویر: روئٹرز)

تاہم سابق وزیراعظم عمران خان کا دعویٰ ہے کہ امریکی سفارت کار ڈونلڈ لو نے ایک ملاقات میں اسد مجید خان کو کہا تھا کہ اگر پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے وزیراعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد ناکام ہوئی تو انہیں ’سنگین نتائج‘ کا سامنا کرنا پڑے گا۔
اس معاملے پر عمران خان کی سابقہ حکومت اور وزیراعظم شہباز شریف کی موجودہ حکومت میں قومی سلامتی کمیٹی کے دو اجلاس ہوچکے ہیں۔
عمران خان کی سربراہی میں ہونے والے پہلے اجلاس میں امریکی سفارت کار کی جانب سے استعمال کی گئی زبان کو ’غیرسفارتی‘ قرار دیا تھا اور اسے ’مداخلت‘ کے مترادف قرار دیا تھا۔
تاہم پہلے اجلاس کے بعد پاکستانی فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار کی طرف سے میڈیا بریفنگ کے دوران کہا گیا تھا کہ اجلاس کے بعد جاری ہونے والے متفقہ اعلامیے میں ’سازش‘ کا لفظ استعمال نہیں کیا گیا تھا۔
نئی حکومت آنے کے بعد شہباز شریف نے قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بلایا اور اس اجلاس کے بعد جاری ہونے والے اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ پاکستان کی سکیورٹی ایجنسیوں کو کسی بھی سازش کے کوئی شواہد نہیں ملے۔

شیئر: