سابق وزیراعظم نواز شریف نے ووٹ کو عزت دو کا نعرہ لگایا تھا۔ (فوٹو: اے ایف پی)
اس بات پر اب بحث کا کوئی فائدہ نہیں کہ پی ڈی ایم نے ان حالات میں حکومت کیوں قبول کی؟ ایک منہ کے بل گرتی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کیوں لائے؟ عمران خان کی گرتی پڑتی ساکھ کو کیوں بحال ہونے کا موقع دیا؟
یہ سب اب قصہ پارینہ ہو چکا ہے۔ اب تحریک عدم اعتماد لائی جا چکی ہے۔ اب اتحادی جماعتوں کی بیساکھیوں پر حکومت بنائی جا چکی ہے۔ اب عمران خان رخصت ہو چکے ہیں۔ اب بزدار حکومت جا چکی ہے۔
اب شہباز شریف وزیر اعظم بن چکے ہیں۔ اب حمزہ شہباز پنجاب میں ایک لڑکھڑاتی حکومت کے قائد ایوان منتخب ہو چکے ہیں۔ اب وزارتیں من پسند لوگوں میں تقسیم ہو چکی ہیں۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ تاثر یہ دیا جا رہا ہے کہ جیسے گذشتہ چار سال میں کچھ ہوا ہی نہیں۔ نہ کوئی انتقامی کارروائی ہوئی۔ نہ کال کوٹھڑیوں میں سیاستدانوں کو رکھا گیا۔ نہ نیب کی طرف سے کارروائیاں ہوئیں۔ نہ نواز شریف پر جوتا پھینکا گیا۔
نہ خواجہ آصف پر سیاہی پھینکی گئی۔ نہ احسن اقبال کو گولی ماری گئی۔ نہ شاہد خاقان عباسی کو قید کیا گیا۔ نہ نواز شریف کو مسلم لیگ ن کے بقول جیل میں قتل کرنے کی سازش کی گئی۔ نہ مریم نواز کو کال کوٹھڑی میں رکھا گیا۔
پہلے اس بات کو تسلیم کریں کہ عمران خان نے عدم اعتماد کے بعد جو مہم جوئی کی اس کا اثر ہوا ہے۔ اس کا اثر ہمیں کچھ مقامات پر محسوس ہو رہا ہے۔ اس بات سے قطع نظر کہ عمران خان سچ کہہ رہے ہیں کہ جھوٹ۔ بہتان لگا رہے ہیں یا الزام۔ انہوں نے ایک طبقے کو اپنا زیر اثر بنا لیا ہے۔
وہ کھلے عام لوگوں کے پاس جا رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر آئین، قانون، عدلیہ، ایوان اور عوامی مینڈیٹ پر تنقید کر رہے ہیں۔ مگر ایک لاڈلا سیاست دان ان سب چیزوں سے مبرا ہے۔ وہ چاہے تو ہر قاعدے قانون کو توڑ دے۔
مسلم لیگ ن بھی پی ٹی آئی کی طرح ملک کے مختلف شہروں میں جلسے کر رہی ہیں۔ (فوٹو: ثانیہ عاشق ٹوئٹر)
عمران خان نے ایک بیانہ بہرحال تشکیل دے دیا ہے۔ ایک طبقہ اپنا ہم آواز بنا لیا ہے۔ اسے درست کہیں یا غلط لیکن اسے تسلیم کریں۔ یہ وہ بیانیہ ہے جس کا توڑ اخبار کے اشتہارات نہیں۔ یہ وہ بیانیہ ہے جس کا توڑ ٹھنڈی میٹھی پریس کانفرنسز نہیں۔ یہ وہ بیانیہ ہے جس کا جواب ڈوبتی معیشت کے اعداد و شمار نہیں۔ یہ وہ بیانیہ ہے جس کا جواب اچھی پرفارمنس نہیں۔
مسلم لیگ ن کو اب مصلحت اور مصالحت کی سیاست سے نکلنا ہو گا۔ جھنڈے والی گاڑیوں کے آرام اور تعیش سے نکلنا ہو گا۔ اپنے لہجے کو بلند آہنگ کرنا ہو گا۔ اسی طرز سیاست کو مروج کرنا ہو گا جو نواز شریف نے شروع کی تھی۔ اسی انداز کو اپنانا ہو گا جس نے پنجاب کو شعور دیا۔ اسی بیانیے کو اپنانا ہو گا جس نے ’ووٹ کی عزت‘ کا مطالبہ زباں زد عام کیا۔
عمران خان کے مصنوعی بیانیے کا حل نرمی خوئی نہیں رہی۔ عمران خان کے انتشار پسند بیانیے کا حل مصلحت نہیں رہی۔ اس کے جواب میں اب کھل کر کھیلنا ہو گا۔ اب دبنگ لہجے میں بات کرنی ہو گی۔ اب ڈٹ کر مقابلہ کرنا ہو گا۔
اب اینٹ کا جواب پتھر سے دینا ہو گا ورنہ ساری محنت اکارت جائے گی۔ ساری جدوجہد پر پانی پھر جائے گا۔ جو ذہنی شعور بیدار کیا ہے اس کو زنگ لگ جائے گا۔ جمہوری جذبے سے شرابور ووٹر مایوس ہو جائے گا۔
’عمران خان سوشل میڈیا پر آئین، قانون، عدلیہ، ایوان اور عوامی مینڈیٹ پر تنقید کر رہے ہیں‘ (فوٹو: پی ٹی آئی)
تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد مسلم لیگ ن نے جو فرماں بردرانہ رویہ اپنایا ہے اس روش کو ترک کر دینا ہی مناسب ہے۔ اس سے مطلوبہ نتائج نہیں مل سکتے۔ اس وقت حکومت کے ایک جانب کنواں ہے اور ایک جانب کھائی ہے۔ ان دونوں کو ایک جست میں عبور کرکے بات بن سکتی ہے۔ جرات، ہمت، طاقت کا مظاہرہ ہی اس صورت حال کا حل ہے۔ سر جھکا کر چلنے کی قبیح روایت کو توڑنا ہو گا۔ سر اٹھا کر چلنا سیکھنا ہو گا۔
ابھی تک نومنتخب حکومت کوئی مزاحمتی بیانیہ تخلیق کرنے میں ناکام رہی ہے۔ ایک مریم نواز ہیں جو اس دور میں مزاحمت کا علم ہاتھ یں اٹھائے چل رہی ہیں۔ وہ عوام کے پاس جا رہی ہیں۔ تلخ لہجے میں بات کر رہی ہیں۔ بدتمیزوں کو سبق سکھا رہی ہیں۔ لیکن مسلم لیگ ن کے پاس ابھی ایک ترپ کا پتہ ہے۔
نواز شریف اس ساری صورت حال کو خاموشی سے دیکھ رہے ہیں۔ ان کا ہاتھ عوام کی نبض پر ہوتا ہے۔ آنے والے چند دنوں میں نواز شریف کی بہت اہمیت ہے۔ وہ چاہیں گے تو خان صاحب کے مصنوعی بیانیے کی بساط ایک لمحے میں الٹ جائے گی۔ دودھ کا دودھ، پانی کا پانی ہو جائے گا۔ پھر راج کرے گی خلق خدا۔