سعودی زرعی انجینئر کے صحرائی علاقے میں منفرد تجربے
سعودی زرعی انجینئر کے صحرائی علاقے میں منفرد تجربے
پیر 27 جون 2022 17:28
یہاں آم کے 3000 سے زیادہ درخت لگانے کا بھی ارادہ رکھتے ہیں۔ فوٹو عرب نیوز
سعودی عرب کے صحرائی علاقے کے مغربی کنارے پر واقع خلیص شہر کے قریب فارم ہاؤسز میں ہر قسم کی جڑی بوٹیوں اور سبزیاں اگائی جا رہی ہیں۔
عرب نیوز کے مطابق فارم اؤسز کے سی ای او 24 سالہ سفیان البشری ایک قابل زرعی انجینئر ہیں جنہوں نے یہ ثابت کیا ہے کہ تکینکی معلومات کو بروئے کار لاتے ہوئے ماحول کو سرسبز بنانے کے خواب کو پورا کرنا مشکل نہیں اور اس سے کاروبار بھی چلایا جا سکتا ہے۔
انجینئر سفیان البشری نے بتایا ہے کہ علاقے میں پانی کی کمی کے باوجود وہ کاشتکاری کے بہترین طریقوں، ٹیکنالوجی اور خودکار نگرانی کے نظام کا استعمال کرتے ہوئے مکمل ماحولیاتی نظام بنانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔
خاندانی زمین کی 15ہزار مربع میٹر کی ایک پٹی پر2020 میں انہوں نے پانچ گرین ہاؤسز کے ساتھ موجن فارمز قائم کیا، جہاں مختلف قسم کی جڑی بوٹیاں اور سبزیاں کاشت کی جاتی ہیں۔
انہوں نے زرعی انجینئرنگ کے حوالے سے بتایا کہ ہائیڈروپونک ٹیکنالوجی مٹی کے بغیر فصلوں کی کاشت کی اجازت دیتی ہے جس کی جڑیں مائع غذائیت کے محلول اگتی اور پرورش پاتی ہیں۔
مائع غذائیت کے محلول کا پانی پودوں کی ضروری خوراک کا مرکب ہےجو روایتی پودے لگانے کے طریقوں سے زیادہ تیزی سے فصل کی نشوونما کرتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ فارم ہاؤسز میں تلسی، جاپانی گوبھی، سلاد کے پتے اور چیری ٹماٹر سمیت مختلف فصلیں اگائی جا رہی ہیں۔ ہر ہاؤس کا الگ ماحولیاتی نظام ہے اور اس کی مخصوص اقسام ہیں۔
موجن فارمز ماحول دوست ہیں یہاں پانی کے نظام کا بہتر استعمال ہے جس سے پانی کے استعمال میں 40 فیصد کمی آتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ہم مقامی طور پر ایک کمپنی کے ساتھ کام کررہے ہیں جو بائیو پولیمر تیار کرتی ہے جو اس وقت ہمارے پاس زمین کے نیچے بچھے ہیں۔
پولیمر نظام پانی کو ٹھہرائے رکھتا ہے اور کھیت نیچے سے پانی کے ساتھ بھرے رہتے ہے جس سے پودے کو پانی جذب کرنے کے لیے کافی وقت ملتا ہے اس لیے ہمیں بہت کم آبپاشی کرنا پڑتی ہے۔
انجینئر سفیان البشری نے بتایا کہ پانی کے استعمال اور کھاد کے پھیلاؤ کی مسلسل نگرانی کرنے کے بجائے موجن کے گرین ہاؤسز سنسر سسٹم سے بھی لیس ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ وہ فارم ہاوس میں ایسی فصلیں اگاتے ہیں جن کی مارکیٹ میں مانگ ہے اور اب طویل مدتی سرمایہ کاری کے طور پر یہاں آم کے 3000 سے زیادہ درخت لگانے کا بھی ارادہ رکھتے ہیں۔