کیا جو بائیڈن کے دورہ سعودی عرب سے تیل کی قیمتوں میں کمی آئے گی؟
کیا جو بائیڈن کے دورہ سعودی عرب سے تیل کی قیمتوں میں کمی آئے گی؟
جمعرات 14 جولائی 2022 20:07
عالمی طور پر سعودی عرب امریکہ کا 12 واں سب بڑا تجاررتی پارٹنر ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)
ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن کے سعودی عرب کے دورے سے تیل کی قیمتوں میں کمی کی توقع حقیقت پسندانہ نہیں کیونکہ توانائی کی قیمتوں کا تعین عالمی مارکیٹ اور سیاسی عوامل کرتے ہیں۔
عرب نیوز کے مطابق گیس کی قیمت گذشتہ چار مہینوں کے دوران دو گنا ہوگئی ہے جس نے امریکی معیشت کو سست روی کا شکار کردیا ہے جس کی وجہ سے جو بائیڈن پریشان ہے۔
جو بائیڈن کو آٹھ نومبر کو ہونے والے وسط مدتی انتخابات میں امریکی ایوان نمائندگان اور سینیٹ کے کنٹرول کو کھونے کا بھی خطرہ ہے۔
سابق امریکی اسسٹنٹ سیکریٹری برائے مشرق قریب ڈیوڈ شنکر اور سعودی تجزیہ کار سلمان انصاری کا کہنا تھا کہ صرف خام تیل کی پیداوار بڑھانے سے تیل کی قیمتیں کم نہیں ہوں گی ’کیونکہ تیل کو ریفائن (صاف) کرنے کی گنجائش کے حوالے سے محدودات اور یورپ کے جیو پولیٹیکل عوامل اس پر اثرانداز ہوتے ہیں۔‘
ڈیوڈ شنکر کے مطابق جب صدر جو بائیڈن اقتدار میں آئے تھے تو اس وقت ایک گیلن گیس کی قیمت دو ڈالر تھی جو کہ اب امریکہ کے ایسٹ کوسٹ میں پانچ ڈالر فی گیلن تک پہنچ گئی ہے۔ صدر جو بائیڈن چاہتے ہیں کہ سعودی عرب اور امریکہ کے دیگر خلیجی اتحادی بشمول متحدہ عرب امارات، کویت اور قطر تیل کی قیمتیں کم کریں، لیکن گنجائش، اضافے اور پیداوار کے سلسلے میں کافی محدودات ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی تیل کو ریفائن کرنے کی گنجائش بھی ایک ایشو ہے اور یہ بائیڈن کے دورے کے ایجنڈے میں سرفہرست ہے۔‘
’میرا خیال ہے کہ آپ چند لاکھ بیرل اضافی تیل حاصل کرسکتے ہیں شاید ڈیڑھ لاکھ۔ لیکن اگر آپ 10 لاکھ یا 20 لاکھ بیرل تیل اضافی حاصل بھی کرتے ہیں تو امریکی صارفین کو یہ سمجھنا چاہیے کہ اس سے کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا کیونکہ یہ اضافی تیل ہمارے پاس نہیں آئے گا بلکہ یہ عالمی مارکیٹ میں جائے گا۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اگر آپ سعودیوں کو سنتے ہیں اور جو کچھ میں نے ان سے سنا جب میں ریاض اور دہران میں تھا۔ میں اپنے گذشتہ دورے کے دوران آرامکو کمپنی بھی گیا اور سعوی کہتے ہیں کہ وہ بہت کچھ نہیں کرسکتے۔ ان کے مطابق تیل کی پیداوار کوئی مسئلہ نہیں بلکہ ایشو تیل کو صاف کرنے کی گنجائش ہے۔‘
سلمان انصاری ڈیوڈ شنکر سے اتفاق کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ’کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ سعودی عرب خام تیل کی پیداوار میں اضافہ کرے گا لیکن میرا نہیں خیال کہ یہ کسی ڈرامائی انداز میں ہونے جارہا ہے کیونکہ سعودی عرب اوپیک پلس کے معاہدوں کا پابند ہے۔‘
’ہمیں یہ فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ توانائی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کا تعلق خام تیل کی ترسیل سے نہیں بلکہ اس کا تعلق یورپ میں جیوپولیٹکل کشیدگی سے ہے، اور روس یورپ کو 30 فیصد تیل اور 40 فیصد گیس فراہم کرتا ہے۔‘
ڈیوڈ شنکر کا کہنا تھا کہ ’صدر جو بائیڈن سعودی عرب کے ساتھ تعلقات کو بہتر کرنا چاہتے ہیں جس پر انہوں نے اپنی الیکشن مہم اور 18 ماہ کے اقتدار کے دوران سخت تنقید کی تھی۔‘
سلمان انصاری کا کہنا ہے کہ سعودی عرب اور امریکہ کے تعلقات کا آغاز جب سے 76 سال قبل فرینکلین روزویلٹ اور شاہ عبد العزیر ابن سعود کے درمیان ہوا یہ دونوں ممالک کے لیے سود مند رہے ہیں۔
’یہ تعلقات 76 سالوں یعنی آٹھ دہائیوں سے ہیں اور میں امریکی وزیر خارجہ بلنکن کے بیان کا حوالہ دوں گا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ امریکہ اور سعودی عرب کے تعلقات کسی بھی فرد واحد سے اہم اور بڑھ کر ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ان کے خیال میں دونوں فریقین کو ان تعلقات کی اہمیت کا احساس ہے۔ سعودی عرب مشرق وسطیٰ میں امریکہ کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے۔‘
ان کے مطابق سعودی عرب کے لیے امریکہ دوسرے نمبر کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے اور عالمی طور پر سعودی عرب امریکہ کا 12 واں سب بڑا تجاررتی پارٹنر ہے۔
’تو ہم بہت ہی اہم تعلقات کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔ اور اس بات کو بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ سعودی عرب مسلم دنیا کا مرکز اور دل ہے۔ آپ مسلم یا عرب دنیا کا کوئی بھی مسئلہ کو سعودی عرب کو شامل کیے بغیر حل نہیں کر سکتے۔