Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سٹاک مارکیٹ میں غیریقینی:’24 ماہ کا انتظار، سب ایک ہفتے میں ختم‘

معاشی ماہرین کے مطابق ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں مسلسل کمی ہو رہی ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
’کمیٹی ڈال کر اپنے پیسے حصص کی خریداری میں لگائے۔ 24 ماہ انتظار کے بعد جب پیسے ملے تو ایک ہی ہفتے میں ہاتھ سے چلے گئے۔‘
یہ کہنا ہے کراچی کے 36 سالہ رہائشی محمد بلال کا جنہوں نے اپنے مہینے کے اخراجات کنٹرول کر کے ایک کمیٹی ڈالی تاکہ کچھ پیسے جمع ہو جائیں اور وہ ملازمت کے ساتھ ذاتی کاروبار بھی شروع کر سکیں۔ 
لیکن ان کے بقول چار لاکھ کی رقم ملی تو ایک دوست کے مشورے پر چھ ماہ سٹاک مارکیٹ پر نظر رکھی اور حصص خرید لیے۔ ’سوچا تھا چھوٹے شیئرز میں سرمایہ لگا کر نقصان کی گنجائش کم ہو گی لیکن پیسے ایک ہی ہفتے میں ختم ہو گئے۔‘
ملک میں جاری موجودہ سیاسی صورتحال کے پیش نظر معاشی صورتحال ہر گزرتے دن کے ساتھ بگڑتی جا رہی ہے۔ رواں ہفتے پاکستان سٹاک ایکسچینج میں شدید مندی کا رجحان رہا۔
100 انڈیکس 42 ہزار پوائنٹس کی سطح کھو بیٹھا اور 40 ہزار کی سطح پر آنے سے محمد بلال کی طرح کئی افراد کا سرمایہ ڈوب گیا۔
روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر میں رواں ہفتے ریکارڈ اضافہ رپورٹ ہوا اور جمعے کو انٹر بینک میں ڈالر 230 روپے کی سطح پر پہنچ گیا۔
معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں مسلسل کمی ہو رہی ہے۔ اس کے علاوہ درآمدی بل اور بڑھتے اخراجات معیشت کو متاثر کر رہے ہیں۔
معاشی امور کے ماہر ڈاکٹر قیصر بنگالی سمجھتے ہیں کہ امپورٹ کم کیے بغیر بہتری ممکن نہیں ہے۔ اردو نیوز سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ ’یہ معاملہ کسی حکومت کا نہیں ہے۔ تین سال سے امپورٹ بڑھ رہی ہے۔ یہ مسئلہ ایسے حل نہیں ہو گا۔‘
قیصر بنگالی نے کہا کہ ’اس سے پہلی جو حکومت تھی وہ بھی معیشت کے لیے کوئی خاطر خواہ کام نہیں کرسکی اور موجودہ حکومت بھی کام نہیں کر پا رہی۔ اس وقت ڈالر ریکارڈ سطح پر ہے، اس کے علاوہ سٹاک مارکیٹ کی صورتحال بھی سب کے سامنے ہے۔‘

روپے کے مقابلے میں ڈالر کی قدر میں رواں ہفتے ریکارڈ اضافہ رپورٹ ہوا (فوٹو: اے ایف پی)

زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ’آئی ایم ایف سے قسط پیوند لگانے کی مانند ہے۔ گذشتہ 20 سال معیشت کو اسی طرح چلایا جا رہا ہے۔ ملکی معیشت کو بہتر کرنے کے لیے ضروری ہے کہ برآمدات میں اضافہ کیا جائے۔‘
قیصر بنگالی نے بتایا کہ ’آئی ایم ایف پروگرام مسئلے کا حل نہیں ہے۔ اخراجات میں کمی کے ساتھ ساتھ اس طرف توجہ دینا ہوگی کہ ایکسپورٹ کو کیسے بڑھایا جائے۔ جن شعبوں میں ایکسپورٹ بڑھ سکتی ہے ان شعبوں پر توجہ دینے کی  ضرورت ہے۔ انہیں سپورٹ کیا جائے گا تو بہتری آنا شروع ہو گی۔‘
ماہر معیشت ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’عمران خان کے دور میں سٹیٹ بینک کو خود مختاری دے دی گئی تھی۔ سٹیٹ بینک نے تین ماہ میں کوشش ہی نہیں کی کہ زرمبادلہ کے ذخائر بڑھائے جائیں۔ فارن بینکس سے قرضے لے سکتے تھے۔ ماضی میں بھی لیے جاتے رہے ہیں۔ زرمبادلہ کے ذخائر اگر مستحکم رہتے تو صورتحال ایسی نہ ہوتی۔‘
انہوں نے کہا کہ اس وقت سٹیٹ بینک کو ضرورت سے زیادہ خود مختاری دے دی ہے۔ مرکزی بینک کے سربراہ آئی ایم ایف کے نمائندہ ہی ہیں۔ 13 فیصد پر باہر سے قرض لے آتے تو صورتحال بہتر رہتی۔ احتیاط کر رہے تھے یا پھر سیاسی وجوہات تھیں۔ وزارت خزانہ کو اس معاملے کو دیکھنے کی ضرورت تھی۔‘
شاہد حسن صدیقی کے بقول ’بجٹ آئی ایم ایف سے طے معاہدے کے خلاف پیش کر دیا۔ اس کے بعد آئی ایم ایف کو اس پر تحفظات ہوئے۔‘

معاشی امور کے ماہر ڈاکٹر قیصر بنگالی کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف پروگرام مسئلے کا حل نہیں ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

سٹاک مارکیٹ میں مندی کے رجحان پر ان کا کہنا تھا کہ ضمنی انتخاب میں حکومتی ناکامی کے بعد سیاسی عدم استحکام دیکھنے میں آ رہا ہے۔ اس کی وجہ سے بھی سرمایہ کار محتاط ہیں۔ اور اس کا اثر نہ صرف سٹاک مارکیٹ میں نظر آرہا ہے بلکہ روپے پر بھی دباؤ بڑھتا جا رہا ہے۔  
دوسری جانب کاروباری ہفتے کے آخری روز پاکستان سٹاک ایکسچینج میں مثبت رجحان رپورٹ کیا گیا۔ کاروبار کے اختتام پر مارکیٹ میں 250 سے زائد پوائنٹس کا اضافہ رپورٹ کیا گیا اور مارکیٹ 40 ہزار پوائنٹس کی سطح پر بند ہوئی۔  
فاریکس ڈیلرز کے مطابق روپے کی قدر میں گراوٹ کا سلسلہ بھی برقرار رہا اور جمعے کو انٹر بینک میں ڈالر 2 روپے اضافے کے ساتھ 230 روپے کی سطح پر بند ہوا جبکہ اوپن مارکیٹ میں ڈالر 226 روپے میں خریدا اور 228 روپے میں فروخت کیا گیا۔

شیئر: