Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

قومی پرچم: چند دلچسپ تاریخی حقائق

11 اگست 1947 میں پہلی بار لیاقت علی خان نے اسمبلی میں قومی پرچم لہرایا (فائل فوٹو)
قومی ریاست کے جدید تصور میں کسی بھی ملک کا قومی پرچم، قومی ترانہ یا قومی نشان وغیرہ خصوصی اہمیت رکھتے ہیں۔ بیشتر مشرقی ممالک نے قومی علامات کے اس تصور کو نوآبادیاتی دورکے اختتام پر اپنی تحریک آزادی کے دوران یا اس کی کامیابی پر اختیار کیا۔  
پاکستان کی تحریک آزادی کے آخری مرحلے میں جب پاکستان کا قیام طے ہو چکا تھا، گو آزادی کا باضابطہ اعلان ابھی باقی تھا، برصغیر کی مسلم قیادت نے نوخیز ریاست کے قومی پرچم کے لیے مشاورت شروع کر دی تھی۔ 
اس معاملے میں قائد اعظم سمیت دیگر قائدین کا لگاؤ ایک فطری بات تھی، تاہم حیرت انگیز طور پر برصغیر کے آخری وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو بھی اس امر میں دلچسپی تھی کہ مجوزہ پاکستان کا پرچم کیا اور کیسا ہو۔ 
ایک موقع پر وائسرائے نے قائد اعظم محمد علی جناح سے پاکستان کے قومی پرچم سے متعلق استفسار کیا اور ساتھ ہی انہیں مطلع کیا کہ ’ انڈیا کے نمائندے تو اس بات پر رضامند ہیں کہ باقی نو آبادیوں کی طرح اپنے جھنڈے میں پانچواں حصہ برطانوی پرچم یعنی یونین جیک کے لیے مخصوص کردیں اور ساتھ ہی اس باب میں پاکستان کے رویے سے متعلق بھی پوچھ لیا کہ آیا اس طرح کی کوئی گنجائش پاکستان کے پرچم میں بھی ہو گی یا نہیں۔‘ 
قائد اعظم نے اس معاملے پر اپنے رفقا سے مشورے کے بعد جواب دینے کا کہا تاہم جب یہ مسئلہ قومی قیادت کے سامنے رکھا گیا تو اُس نے وائسرائے کی اس خواہش کو متفقہ طور پر رد کر دیا اور مؤقف اختیار کیا کہ ’ہمیں یہ تجویز نہیں ماننی چاہیے کیونکہ ہماری کیفیت برطانوی نو آبادیوں سے جدا ہے۔ جو ممالک برطانوی لوگوں کے قبضے میں ہیں، انہیں قدرتاً برطانوی جھنڈے سے خاص تعلق ہے، ہم تو برطانیہ کے قبضے سے آزادی حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ پاکستان کے پرچم میں برطانوی پرچم کو جگہ دینا غلامی کی یادگار ہوگا۔'  

قائداعظم نے جھنڈے کے ڈیزائن کے حوالے سے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی تجویز مسترد کر دی تھی (فائل فوٹو)

اس جواب کے بعد قائد اعظم نے وائسرائے کو مطلع کردیا کہ ’انڈیا کا جو بھی رویہ ہو پاکستان کئی وجوہ سے یونین جیک کو پرچم میں جگہ نہیں دے گا۔' 
مسلم قیادت کے اس جواب  کے باوجود یہ سوال اپنی جگہ موجود تھا کہ پاکستان کا جھنڈا کیسا ہو؟ 
اس باب میں زیادہ بحث و مباحثہ کی نوبت نہیں آئی، اس لیے کہ اس امر پر اتفاق تھا کہ تحریکِ پاکستان مسلم لیگ کے چاند تارے والے سبز پرچم تلے کامیاب ہوئی ہے، برصغیر کے مسلمان اس پرچم سے مانوس اور اس پر متفق ہیں، لہٰذا اسی پرچم کو ضروری ترمیم کے بعد قومی پرچم کا درجہ دیا جانا چاہیے۔ 
اس سارے معاملے میں اس بات پر بھی اتفاق ہو گیا تھا کہ پاکستان میں موجود اقلیتوں کی نمائندگی مختلف رنگوں سے کرنے کے بجائے سفید رنگ سے کی جائے گی۔
اب فقط یہ طے ہونا باقی تھا کہ پرچم میں سفید رنگ کس مقام پر اور کس تناسب سے ہو گا۔ 
اس مرحلے پر وائسرائے ہند نے قائد اعظم کو مشورہ دیا کہ نیوی والے پرچم تجویز کرنے میں ماہر ہوتے ہیں، اس لیے انہیں کہا جائے کہ پاکستانی نمائندوں کے فیصلوں کے مطابق پرچم تجویز کریں۔ 
قیام پاکستان کے باقاعدہ اعلان سے بھی بہت پہلے وجود میں آنے والے پاکستانی پرچم کا ڈیزائن سید امیر الدین قدوائی کو تیارکرنے کا اعزاز حاصل ہوا۔
اس تاریخی کارنامے کی انجام دہی میں انہیں علامہ اقبال کے دیرینہ رفیق غلام بھیک نیرنگ اور آل انڈیا یوتھ لیگ کے بانی علامہ راغب احسن کی مشاورت حاصل تھی۔ 

14 اگست 1947 کی صبح پیرس میں بھی پاکستان کا پرچم فضا میں بلند ہوا تھا (فوٹو: نیشنل ہیرالڈ انڈیا)

تاریخی روایت سے پتا چلتا ہے کہ مسلم لیگ کے پرچم اور اس میں سفید رنگ کے اضافے سے پرچموں کے جو دو دیگر ڈیزائن تیار ہوئے، ان میں سے ایک پرچم میں دائیں اور بائیں سفید رنگ اور درمیانی سبز حصہ چاند ستارے سے مزّین تھا۔ جب کہ دوسرا پرچم تھا تو موجودہ پرچم کے مطابق ہی، تاہم اس میں ستاروں کی تعداد پانچ تھی۔ 
یہ پنج ستارہ پرچم بنیادی طور پر قائد اعظم کی تجویز تھی۔ قائد اعظم ان پانچ ستاروں کو پاکستان کے پانچ صوبوں (بنگال، سندھ، پنجاب، بلوچستان اور سرحد/ موجودہ پختونخواہ) کی علامت کے طور پر دیکھ رہے تھے۔ 
تاہم اس مجوزہ پرچم کو پذیرائی نہیں مل سکی۔ اس باب میں سردار عبدالرب نشترکی دلیل تھی کہ 'پاکستان کے ساتھ ریاستوں کا الحاق نیز کئی وجوہات سے ہمارے صوبوں میں کمی بیشی کا امکان ہے، اس لیے اگر یونٹوں کی تعداد میں تبدیلی واقع ہو گئی تو وقتاً فوقتاً ستاروں کی تعداد بدلنا پڑے گی اور اگر نہ بدلیں تو پانچ ستارے بے معنی ہو کر رہ جائیں گے۔' 
سردار عبدالرب نشتر کے ان دلائل کی روشنی میں یہی طے پایا کہ پرچم پر ایک ستارہ ہی رہے گا، کیونکہ مسلم لیگ کے پرچم میں بھی ایک ستارہ ہے۔ 
قومی قیادت کے فیصلے کی روشنی میں سید امیر الدین قدوائی کے بنائے ہوئے ڈیزائن کے مطابق پرچم کی تیاری کا اعزاز بلند شہر(اترپردیش) سے تعلق رکھنے والے دو بھائیوں ماسٹر افضال حسین اور ماسٹر الطاف حسین کو حاصل ہوا۔ یہ دونوں بھائی دہلی میں درزی کا کام کرتے تھے اور اپنی مہارت کی وجہ سے مشہور تھے۔  

قائداعظم نے ڈیزائن کے حوالے سے سردار عبدالرب نشتر کا نکتہ تسلیم کیا تھا (فائل فوٹو)

قیام پاکستان سے تین روز قبل 11 اگست کو 1947 کو ریاست پاکستان کا پرچم باقاعدہ منظوری کے لیے دستور ساز اسمبلی میں پیش کیا گیا۔ یہ قرارداد قائدِ ملت لیاقت علی خان نے پیش کی اور بطورِ نمونہ تیار کیا جانے والا پاکستان کا ایک چھوٹا سا پرچم بھی اسمبلی میں لہرایا۔  
اس موقع پر قائد ملت نے اپنے خطاب میں کہا کہ ’کسی قوم کا پرچم محض کپڑے کا ٹکڑا نہیں ہوتا بلکہ اُس کی اہمیت اس میں ہے کہ وہ کس بات کی نمائندگی کرتا ہے اور میں بلا خوفِ تردید یہ کہہ سکتا ہوں کہ جو پرچم میں نے پیش کیا ہے وہ اُن لوگوں کی آزادی و حریت اور مساوات کا ضامن ہے جو اس سے وفاداری کا عہد کرتے ہیں۔ یہ پرچم شہریوں کے جائز حقوق کی حفاظت اور اس کا دفاع کرے گا۔'
 نواب زادہ لیاقت علی خان کی جانب سے پیش کی جانے والی اس قرارداد کو متفقہ طور پر منظور کر لیا گیا۔ یوں سبز ہلالی پرچم ریاست پاکستان کی علامت قرار پایا۔ 
قیام پاکستان کے فوری بعد بیرونی دنیا میں پاکستان کا قومی پرچم سب سے پہلے فرانس میں لہرایا گیا۔ یہ تقسیم ہند سے ذرا پہلے جولائی 1947 کا ذکر ہے جب ہندوستانی سکاؤٹس کا 154 رکنی دستہ چھٹی بین الاقوامی سکاؤٹ جمبُوری میں شرکت کے لیے فرانس کے شہر موائزن گیا ہوا تھا۔ 
ہندوستان کے سبھی مذہب و ملت کے سکاؤٹس پر مشتمل اس دستے کی قیادت آل انڈیا بوائے سکاؤٹس ایسوسی ایشن کے سیکریٹری جنرل جے ٹی جے تھیڈیئس کر رہے تھے۔ 
فرانس میں سکاؤٹ جمبُوری کے دوران ہی 14 اگست سر پر آ گئی۔ ایسے میں ہند کی آزادی اور قیام پاکستان کا جشن منانے کا فیصلہ ہوا۔ اس موقع پر پاکستانی پرچم کی تیاری کے حوالے سے دلچسپ صورتحال پیدا ہوئی۔ 

پہلے پرچم کی تیاری کا اعزاز دو بھائیوں ماسٹر افضال حسین اور ماسٹر الطاف حسین کو حاصل ہوا (فوٹو: پاکستان کرونیکلز)

پاکستانی پرچم کا ڈیزائن فرانسیسی اخبار  انٹرکانٹیننٹل ڈیلی نیوز پیرس کی 13 اگست 1947 کی اشاعت میں شائع ہوا اور اسی روز یہ اخبار ایک الجزائری سکاؤٹ نے ہندوستانی دستے کو فراہم کیا۔ 
اس ڈیزائن کے مطابق جھنڈے کی تیاری کے لیے سبز رنگ کا کپڑا شملہ کے ایک ہندو سکاؤٹ نے اپنی پگڑی سے جبکہ سفید کپڑا ملتان کے سکاؤٹ خورشید عباس گردیزی نے اپنی قمیض پھاڑ کر دیا جبکہ اس پرچم کی تیاری میں دو فرانسیسی گرل سکاؤٹس (گرل گائیڈ) مس ایف پالی اور مس جی ڈیلیکوٹ کا تعاون بھی حاصل رہا۔ 
14 اگست 1947 کی صبح سکاؤٹ گراؤنڈ میں تین مختلف پرچم فضا میں بلند ہوئے ان میں ایک پاکستان کا، دوسرا انڈیا کا اور تیسرا پرچم سکاؤٹ کا تھا۔ 
پاکستانی پرچم لہرانے کا اعزاز مسٹر ڈی ایم ماتھر کو حاصل ہوا اور انڈیا کا پرچم مسٹر اقبال قریشی نے لہرایا جبکہ سکاؤٹ کا پرچم سرفراز رفیقی نے بلند کیا۔ یہ وہی سرفراز رفیقی ہیں جو بعد میں پاک فضائیہ کا حصہ بنے اور سکارڈن لیڈر کی حیثیت سے 1965 کی جنگ میں فاتح ہلواڑہ بن کر شہادت سے سرفراز ہوئے۔ 

شیئر: