'ان دی پاتھ آف ابراہم' مشرق وسطیٰ کے امن عمل پر کتاب
'ان دی پاتھ آف ابراہم' مشرق وسطیٰ کے امن عمل پر کتاب
جمعرات 6 اکتوبر 2022 14:42
کتاب امن عمل کا اندرونی منظر نامہ پیش کرتی ہے جس نے معاہدہ ممکن بنایا۔ فوٹو نیوز لکس
چار عرب ممالک اور اسرئیل کے مابین طے پانے والے تاریخی معاہدے کے دوسال مکمل ہونے پر بین الاقوامی امور کے امریکی نمائندہ خصوصی جیسن گرین بلیٹ نے 'ان دی پاتھ آف ابراہم' کے عنوان سے کتاب تحریر کی ہے۔
عرب نیوز میں شائع ہونے والے مضمون کے مطابق اس معاہدے کے تحت اب تک چار عرب ممالک متحدہ عرب امارات، بحرین، مراکش اور سوڈان کے اسرائیل کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لایا گیا ہے۔
جیسن گرین بلیٹ کی تحریر کردہ کتاب 'ان دی پاتھ آف ابراہم' پڑھنے والوں کو اس سوچ اور عمل کا اندرونی منظر نامہ پیش کرتی ہے جس نے ان ممالک کے مابین اس معاہدے کو ممکن بنایا۔
سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے2016 میں جیسن گرین بلیٹ کو بین الاقوامی مذاکرات کے لیے امریکہ کی جانب سے نمائندہ مقرر کیا تھا۔
مصنف نے جیرڈ کشنر، سفیر ڈیوڈ فریڈمین اور کشنر کے معاون ایوی برکووٹز کے ساتھ مل کر اسرائیل، فلسطینیوں اور ان کے پڑوسیوں کے درمیان امن کے لیے امریکی کوششوں کی قیادت کی۔
کتاب میں اس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ انہوں نےاس یادگار کام کو کیسے انجام تک پہنچانے میں مدد کی۔
اس معاہدے کے لیے گرین بلیٹ اور ان کے ساتھیوں کو عرب اسرائیل تنازع پر حاصل ہونے والی زیادہ تر حکمتوں پر دوبارہ توجہ مبذول کرنی پڑی۔
اس تنازع پر طویل عرصے سے متفقہ نظریہ یہ تھا کہ اسرائیل اور مختلف عرب ریاستوں کے درمیان اس وقت تک امن عمل معمول پر نہیں آسکتا جب تک فلسطینیوں کے ساتھ کوئی حتمی امن معاہدہ نہیں ہو جاتا۔
مشرق وسطی اور شمالی افریقہ (مینا)کا خطہ وقت کے ساتھ ساتھ بدل گیا ہےتاہم اسرائیل-فلسطینی تنازع اپنی جگہ پر نظر آرہا ہے۔
ماہرین تعلیم اور تھنک ٹینکس سے لے کر انٹیلی جنس افسران اور محکمہ خارجہ یا مختلف وزارتوں میں ڈیسک سنبھالنے والے افراد بڑی حد تک ان تبدیلیوں کو سراہنے میں ناکام رہے ہیں۔
درحقیقت خطے کے موجودہ حالات میں اسرائیل نہ تو تہران کو لاحق خطرے کو نظر انداز کرے گا اور نہ ہی ایران کی جغرافیائی سیاسی اہمیت کو سمجھنے میں ناکام رہے گا۔
جیسا کہ گرین بلیٹ نے خطے کے حالات کو جاننے کے بعد سمجھ لیا تھا کہ بہت سی عرب ریاستوں اور اسرائیل کے درمیان مشترکہ مفادات ایران سے بھی آگے ہیں۔
متحدہ عرب امارات، بحرین، مراکش اور سوڈان کے عرب لیڈروں نے یہ سب کچھ دیکھنے اور ضروری اقدامات کرنے کے لیے کافی دور اندیشی اور ہمت کا مظاہرہ کیا ہے۔