Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

دفعہ 144 کے خاتمے کے لیے پی ٹی آئی پارلیمنٹ سے رجوع کرے: اسلام آباد ہائی کورٹ

اسد عمر نے پانچ یا اس سے زائد افراد کے جمع ہونے پر پابندی کے قانون کو چیلنج کیا تھا (فوٹو: اے ایف پی)
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی جانب سے اسلام آباد میں دفعہ 144 کے قانون کے خلاف دائر درخواست پر محفوظ شدہ فیصلہ سناتے ہوئے اُسے ناقابل سماعت قرار دے کر خارج کر دیا ہے۔ 
پیر کو عدالت نے کہا ہے کہ تحریک انصاف کی دو صوبوں میں حکومت ہے پہلے اپنے صوبوں سے دفعہ 144 کو قانون سے ختم کریں، پھر درخواست لے کر آئیں۔  
پی ٹی آئی کے سیکریٹری جنرل اسد عمر نے پانچ یا اس سے زائد افراد کے جمع ہونے پر پابندی کے قانون کو چیلنج کیا تھا۔ دلائل سننے کے بعد عدالت نے فیصلہ محفوظ کر لیا تھا۔  
اس سے قبل چیف جسٹس اطہر من اللہ کے روبرو کیس کی سماعت میں درخواست گزار اسد عمر کی جانب سے بابر اعوان نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ دفعہ 144 کا نفاذ پرامن احتجاج روکنے کے لیے غیرآئینی قانون ہے۔ برطانوی راج نے یہ قانون بنایا تھا جو آج بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔ 
دوران سماعت چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’اس جماعت کی دو صوبوں میں حکومت ہے، کیا ادھر کبھی دفعہ 144 نافذ نہیں کی گئی؟ پی ٹی آئی پارلیمنٹ کا حصہ ہے بل لا کر دفعہ 144 قانون ختم کرا سکتی ہے۔ امن و امان دیکھنا ایگزیکٹو کا اختیار ہے جس میں عدالت کبھی مداخلت نہیں کرے گی۔‘
’دفعہ 144 کے تحت اگر کوئی اختیار کا غلط استعمال ہو تب ہی معاملہ عدالت آ سکتا ہے صرف نفاذ ہونا بنیادی حقوق کی خلاف ورزی نہیں۔  جب پی ٹی آئی کی حکومت تھی کیا اسلام آباد میں دفعہ 144 کا نفاذ نہیں رہا؟‘
بابر اعوان نے عدالت کو بتایا کہ یہ ایک سیاسی جماعت کی طرف سے نہیں بلکہ سابق ایم این اے کی درخواست ہے۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ یہ سابق رکن اسمبلی کی درخواست نہیں، پٹیشنر اب بھی رکن قومی اسمبلی ہیں۔
جس پر بابر اعوان نے کہا کہ ’میں آپ سے اختلاف نہیں کر سکتا مگر تصحیح ضرور کر سکتا ہوں۔ ہم نے سب کے سامنے کھڑے ہو کر استعفے دیے۔ اس میں ابھی نہیں جانا چاہتا۔‘
چیف جسٹس نے جواب دیا ’جب تک استعفے منظور نہیں ہوئے، تب تک وہ رکن اسمبلی ہیں۔‘

بابر اعوان نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ دفعہ 144 کا نفاذ پرامن احتجاج روکنے کے لیے غیرآئینی قانون ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

عدالت نے استفسار کیا کہ اس پارٹی کی دو صوبوں میں حکومت ہے۔ اگر سمجھتے ہیں تو پہلے وہاں یہ قانون ختم کر کے کنڈکٹ ثابت کریں۔ کیا دونوں صوبوں میں وہ دفعہ 144 نافذ نہیں کریں گے؟ وکیل بابر اعوان نے عدالت کو بتایا کہ ایک ماہ میں زیادہ سے زیادہ سات دن یا مسلسل دو دن یہ قانون نافذ رہ سکتا ہے۔ قانون میں لکھا ہے، جس سے باہر نہیں جا سکتے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ پنجاب اور کے پی میں اس جماعت کی حکومتیں ہیں۔ آپ پہلے ان صوبوں میں  جا کر یہ قانون اسمبلی سے ختم کروائیں۔ جس پر بابر اعوان  نے کہا کہ ’پٹیشنر اس عدالت کے دائرہ اختیار میں رہنے والا شہری ہے۔ میں سیاست کو عدالت سے باہر رکھنا چاہتا ہوں، یہاں آئین کی بات کروں گا۔ میں کورٹ کے سامنے اپنا سیاسی پلان نہیں رکھنا چاہتا۔‘
بابر اعوان نے کہا کہ اگر آئین سے  متصادم کوئی قانون بنے تو عدالت سے کالعدم قرر دے سکتی ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر آپ نے ریلی نکالنی ہے تو اس کے لیے ڈپٹی کمشنر کو درخواست دیں۔ 

شیئر: