Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’مرضی کے بغیر بائیومیٹرک ڈیٹا کا استعمال‘، گوگل کو مقدمے کا سامنا

گوگل کے ترجمان کا کہنا ہے کہ اس کا حساب عدالت میں ہی برابر کیا جائے گا: (فوٹو: ٹوئٹر، گیکو)
امریکہ کی ریاست ٹیکساس کے حکام نے سرچ انجن گوگل پر صارفین کی مرضی اور علم میں لائے بغیر ان کا بائیومیٹرک (شناختی نشانیاں) ڈیٹا اپنے پاس محفوظ کرنے کا الزام لگاتے ہوئے مقدمہ دائر کر دیا ہے۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق مقدمے میں کہا گیا ہے کہ گوگل ٹیکساس سے ’لاکھوں کی تعداد میں بائیومیٹرکس‘ جمع کر رہا ہے جن میں آواز اور چہرے کی شناختیں شامل ہیں اور اس سے منافع کما رہا ہے جو کہ ریاست کے قوانین کے خلاف ہے۔
مقدمہ ٹیکساس کے اٹارنی جنرل کین پیکسٹن کی جانب سے دائر کرایا گیا ہے۔
انہوں نے ایک بیان میں بتایا ہے کہ ’گوگل کی جانب سے اندھادھند ریاست میں رہنے والوں کا ذاتی ڈیٹا اکٹھا کر رہا ہے جن میں بائیومیٹرک شناختوں جیسی حساس معلومات بھی شامل ہیں۔ ان چیزوں کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔‘
دوسری جانب گوگل نے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے عزم ظاہر کیا ہے کہ ’حقائق کی درستی کے لیے اس کا جواب عدالت میں ہی دیا جائے گا۔‘
گوگل کے ترجمان جوز کیسٹینڈیا نے اے ایف پی کی جانب سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں بتایا کہ ’اٹارنی جنرل پیکسٹن ایک بار پھر ایک بے جان مقدمے میں ہماری چیزوں کام کو غلط انداز میں پیش کر رہے ہیں۔‘

اٹارنی جنرل کے مطابق ’ٹکساس میں لوگوں کی بائیومیٹرک معلومات محفوظ کرنا غیرقانونی ہے۔‘ (فوٹو: روئٹرز

 ان کا مزید کہنا تھا کہ گوگل فوٹو وہ ٹیکنالوجی استعمال کرتا ہے جس سے ملتے جُلتے چہروں کی تلاش میں آسانی ہوتی ہے مگر وہ صرف صارفین کو دکھائی دیتی ہیں اور اس فیچر کو آسانی کے ساتھ بند بھی کیا جا سکتا ہے۔
’کچھ ایسا ہی معاملہ آواز کا بھی ہے جو کہ پہلے سے ہی بند ہوتا ہے تاہم گوگل صارفین کو یہ سہولت دیتا ہے کہ اگر وہ کھولنا چاہیں تو کھول لیں۔ اس سے گوگل ان کو چہرے اور آواز کی مناسبت سے چیزوں کی تلاش میں مدد دیتا ہے۔‘
قدامت پسند سمجھی جانے والی ریپبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے پیکسٹن اس سے قبل بھی ٹیک کمپنیوں کو مقدمات کا نشانہ بنا چکے ہیں۔ ان میں وہ شکایت بھی شامل ہے جو انہوں نے فروری میں معروف سوشل میڈیا پلیٹ فارم فیس بک کی مدر کمپنی میٹا کے خلاف بھی درج کرائی تھی۔
امریکہ کی کئی ریاستوں کی حکومتوں نے ایسے قوانین پاس کر رکھے ہیں جن میں حکومتی ضوابط سے ہٹ صارفین کو ڈیٹا استعمال نہیں کیا جا سکتا اور ٹیکساس بھی انہی میں سے ایک ہے۔
اس معاملے پر ریاستیں اور ٹیکنالوجی کمپنیاں ایک دوسرے کے خلاف مقدمات درج کراتی رہی ہیں۔

شیئر: