Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’اینکرپرسن ارشد شریف کو کینیا جانے کا مشورہ کس نے دیا تھا؟‘

ارشد شریف کی اہلیہ نے سوشل میڈیا صارفین سے گزارش کی ہے کہ وہ ان کے شوہر کی آخری تصویر نہ شیئر کریں (فائل فوٹو: ارشد شریف/فیس بک)
پاکستان کے معروف صحافی و اینکرپرسن ارشد شریف کو کینیا میں گولی مار کر ہلاک کردیا گیا ہے اور ان کی ہلاکت کی تصدیق ان کی اہلیہ کی جانب سے بھی کی جاچکی ہے۔
پاکستانی صحافی کی موت کے حوالے سے کینیا کی حکومت یا پولیس کی جانب سے کوئی باضابطہ بیان تو نہیں جاری کیا گیا لیکن کینیا کے اخبار دا سٹار کے مطابق ارشد شریف کی موت نیروبی کے قریب ہائی وے پر ہوئی۔
اخبار نے ایک پولیس افسر کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے ارشد شریف کی موت پولیس کی گولی لگنے سے ہونے کی تصدیق کی اور رپورٹ کیا کہ پولیس نے اسے ’شناخت کی غلطی‘ قرار دیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ ایک جگہ جہاں پولیس کی جانب سے ناکہ بندی کی گئی تھی وہاں پولیس کو ایک کار کا پیچھا کرنے کے لیے کال کی گئی اور یہ ویسی ہی کار تھی جس میں ارشد شریف سوار تھے۔
پولیس کی طرف سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ ’کار کو رکنے کا اشارہ کیا گیا لیکن گاڑی نہیں رکی جس کے بعد پولیس نے گاڑی کا پیچھا کیا اور فائرنگ سے پاکستانی صحافی کی موت واقع ہوگئی جبکہ ان کا ڈرائیور زخمی ہوا جسے ہسپتال منتقل کردیا گیا۔‘
پاکستانی حکومت کا کہنا ہے کہ ’وہ واقعے کی تحقیقات کے لیے کینیا کی حکومت سے رابطے میں ہیں۔‘
ایک بیان میں پاکستان کے وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے ارشد شریف کی موت پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’واقعے سے متعلق حقائق جاننے کے لیے کینیا کی حکومت سے رابطے میں ہیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’نیروبی میں موجود پاکستانی سفارت خانہ ارشد شریف کے معاملے میں مکمل معاونت کر رہا ہے۔‘
ارشد شریف کی اہلیہ جویریہ صدیق نے ایک ٹویٹ میں ’ٹوئٹر صارفین سے گزارش کی ہے کہ وہ ان کے شوہر کی آخری تصویر سوشل میڈیا پر نہ شیئر کریں۔‘
انہوں نے مزید لکھا کہ ’سیاست دان اور میڈیا کیمروں کے ساتھ ان کے گھر نہ آئیں۔‘
 ان کی موت کی خبر آنے کے بعد پاکستانی سوشل میڈیا پر نہ صرف غم و غصہ پایا جاتا ہے بلکہ لوگ پاکستانی حکام سے ان کی موت کی تحقیقات کروانے کا بھی مطالبہ کررہے ہیں۔
پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف نے پیر کی صبح ایک ٹویٹ میں ارشد شریف کی موت پر دکھ کا اظہار کرتے ہوئے صحافی کے خاندان سے تعزیت کا اظہار کیا۔
وزیراعظم شہباز شریف کے بیان کے بعد سوشل میڈیا پر صحافی و عام صارفین ان پر تنقید کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔
صحافی کامران یوسف نے پاکستانی وزیراعظم کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا کہ ’یہ ایک قتل تھا اور بحیثیت وزیراعظم آپ کو ان کی موت کی تحقیقات کا حکم دینا چاہیے تھا کیونکہ ارشد شریف صرف صحافی نہیں تھے بلکہ پاکستانی شہری بھی تھے۔‘
ارشد شریف کے ساتھ ماضی میں کام کرنے والے متعدد صحافی بھی ان کی موت کی خبر سننے کے بعد نڈھال نظر آرہے ہیں۔
اینکرپرسن مہر بخاری نے ان کی موت پر ردعمل دیتے ہوئے لکھا کہ ’ارشد شریف، نہ صرف ایک کولیگ بلکہ ایک بھائی، اب ہم میں نہیں رہے۔‘
ان کے قریبی دوست رؤف کلاسرا نے لکھا کہ وہ اور ارشد شریف 1998 سے دوست تھے۔ ’پانچ بچوں کا باپ، وہ 2011 میں ایک ہی دن اپنے نیول کمانڈر والد اور میجر ڈاکٹر بھائی کی موت کے بعد سے اپنے خاندان کا واحد مرد سرپرست تھا۔‘
صحافی عفت حسن رضوی نے ارشد شریف کی موت پر سوالات اٹھاتے ہوئے لکھا کہ ’انہیں اپنی حفاظت کے لیے کس نے کینیا جانے کا مشورہ دیا؟ انہوں نے ایک ایسے ملک کا انتخاب کیوں کیا جہاں جرائم کی شرح زیادہ تھی؟‘
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سینیئر رہنما فواد چوہدری نے پاکستانی صحافی کی موت پر دکھ کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ ’ارشد شریف کے قتل کی خبر پر دل لہو لہو ہے۔ ظلم حد پار کرگیا ہے۔‘
ارشد شریف  پی ٹی آئی رہنما شہباز گل کی رواں برس نو اگست کو گرفتاری کے بعد ملک چھوڑ کر چلے گئے تھے۔ وہ طویل عرصے تک اے آر وائی نیوز سے وابستہ رہے جہاں وہ ’پاور پلے‘ کے نام سے پروگرام کرتے تھے۔
ارشد شریف کو 23 مارچ 2019 میں صحافت میں ان کی خدمات کی بنا پر صدر پاکستان سے پرائیڈ آف پرفارمنس ایوارڈ ملا تھا۔

شیئر: