پاکستان کے معروف صحافی و اینکرپرسن ارشد شریف کو کینیا میں گولی مار کر ہلاک کردیا گیا ہے اور ان کی ہلاکت کی تصدیق ان کی اہلیہ کی جانب سے بھی کی جاچکی ہے۔
پاکستانی صحافی کی موت کے حوالے سے کینیا کی حکومت یا پولیس کی جانب سے کوئی باضابطہ بیان تو نہیں جاری کیا گیا لیکن کینیا کے اخبار دا سٹار کے مطابق ارشد شریف کی موت نیروبی کے قریب ہائی وے پر ہوئی۔
اخبار نے ایک پولیس افسر کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے ارشد شریف کی موت پولیس کی گولی لگنے سے ہونے کی تصدیق کی اور رپورٹ کیا کہ پولیس نے اسے ’شناخت کی غلطی‘ قرار دیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ ایک جگہ جہاں پولیس کی جانب سے ناکہ بندی کی گئی تھی وہاں پولیس کو ایک کار کا پیچھا کرنے کے لیے کال کی گئی اور یہ ویسی ہی کار تھی جس میں ارشد شریف سوار تھے۔
مزید پڑھیں
-
پاکستان کیخلاف دہشت گردی کیلئےافغان سرزمین کے استعمال کی مذمتNode ID: 711626
-
ارشد شریف کا قتل، ’پاکستان کا حقائق جاننے کے لیے کینیا سے رابطہ‘Node ID: 711711
پولیس کی طرف سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ ’کار کو رکنے کا اشارہ کیا گیا لیکن گاڑی نہیں رکی جس کے بعد پولیس نے گاڑی کا پیچھا کیا اور فائرنگ سے پاکستانی صحافی کی موت واقع ہوگئی جبکہ ان کا ڈرائیور زخمی ہوا جسے ہسپتال منتقل کردیا گیا۔‘
پاکستانی حکومت کا کہنا ہے کہ ’وہ واقعے کی تحقیقات کے لیے کینیا کی حکومت سے رابطے میں ہیں۔‘
ایک بیان میں پاکستان کے وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے ارشد شریف کی موت پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’واقعے سے متعلق حقائق جاننے کے لیے کینیا کی حکومت سے رابطے میں ہیں۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’نیروبی میں موجود پاکستانی سفارت خانہ ارشد شریف کے معاملے میں مکمل معاونت کر رہا ہے۔‘
ارشد شریف کی اہلیہ جویریہ صدیق نے ایک ٹویٹ میں ’ٹوئٹر صارفین سے گزارش کی ہے کہ وہ ان کے شوہر کی آخری تصویر سوشل میڈیا پر نہ شیئر کریں۔‘
انہوں نے مزید لکھا کہ ’سیاست دان اور میڈیا کیمروں کے ساتھ ان کے گھر نہ آئیں۔‘
Pls @Twitter remove last picture's of my late husband @arsched from ur social media site. Politicians and media are not welcomed with cameras inside our house.
— Javeria Siddique (@javerias) October 24, 2022
ان کی موت کی خبر آنے کے بعد پاکستانی سوشل میڈیا پر نہ صرف غم و غصہ پایا جاتا ہے بلکہ لوگ پاکستانی حکام سے ان کی موت کی تحقیقات کروانے کا بھی مطالبہ کررہے ہیں۔
پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف نے پیر کی صبح ایک ٹویٹ میں ارشد شریف کی موت پر دکھ کا اظہار کرتے ہوئے صحافی کے خاندان سے تعزیت کا اظہار کیا۔
وزیراعظم شہباز شریف کے بیان کے بعد سوشل میڈیا پر صحافی و عام صارفین ان پر تنقید کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔
صحافی کامران یوسف نے پاکستانی وزیراعظم کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا کہ ’یہ ایک قتل تھا اور بحیثیت وزیراعظم آپ کو ان کی موت کی تحقیقات کا حکم دینا چاہیے تھا کیونکہ ارشد شریف صرف صحافی نہیں تھے بلکہ پاکستانی شہری بھی تھے۔‘
What a lame statement. It was a murder and as Prime Minister you should have ordered an inquiry to look into this tragic incident because @arsched was not just a journalist but a Pakistani citizen too. #arshadshareef https://t.co/yy7kxrc2xB
— Kamran Yousaf (@Kamran_Yousaf) October 24, 2022
ارشد شریف کے ساتھ ماضی میں کام کرنے والے متعدد صحافی بھی ان کی موت کی خبر سننے کے بعد نڈھال نظر آرہے ہیں۔
اینکرپرسن مہر بخاری نے ان کی موت پر ردعمل دیتے ہوئے لکھا کہ ’ارشد شریف، نہ صرف ایک کولیگ بلکہ ایک بھائی، اب ہم میں نہیں رہے۔‘
Arshad Sharif, not just a colleague, a brother, is no more. From Islamabad to Moscow, from Dunya News to ARY, I’ve not known a finer gentleman.
Shot dead. Too young. Too brutally.Still can not wrap my head around it
— Meher Bokhari (@meherbokhari) October 23, 2022
ان کے قریبی دوست رؤف کلاسرا نے لکھا کہ وہ اور ارشد شریف 1998 سے دوست تھے۔ ’پانچ بچوں کا باپ، وہ 2011 میں ایک ہی دن اپنے نیول کمانڈر والد اور میجر ڈاکٹر بھائی کی موت کے بعد سے اپنے خاندان کا واحد مرد سرپرست تھا۔‘
Friends since 1998 when I joined Dawn Islamabad.Father of 5 school going kids,he was only male guardian of family left after Naval Commander father&Major Dr brother died on same day in 2011.Words alone cant explain grief&pain we all are suffering.
A massive blow#arshadsharif pic.twitter.com/QxJcOL3vUs— Rauf Klasra (@KlasraRauf) October 23, 2022
صحافی عفت حسن رضوی نے ارشد شریف کی موت پر سوالات اٹھاتے ہوئے لکھا کہ ’انہیں اپنی حفاظت کے لیے کس نے کینیا جانے کا مشورہ دیا؟ انہوں نے ایک ایسے ملک کا انتخاب کیوں کیا جہاں جرائم کی شرح زیادہ تھی؟‘
Who suggested him to go to Kenya for safety? Why did he chose a country that has high crime rate? Mostly journalist and politicians in exile prefer to go to Europe, what made Arshad Sharif to decide for Nerobi ?
— Iffat Hasan Rizvi (@IffatHasanRizvi) October 24, 2022
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے سینیئر رہنما فواد چوہدری نے پاکستانی صحافی کی موت پر دکھ کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ ’ارشد شریف کے قتل کی خبر پر دل لہو لہو ہے۔ ظلم حد پار کرگیا ہے۔‘
ارشد شریف کے قتل کی خبر پر دل خون لہو لہو ہے، ظلم حد پار کر گیا ہے !
— Ch Fawad Hussain (@fawadchaudhry) October 24, 2022