Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

ہمیں اپنی ثقافتوں کی فکر ،نہ وارثت کی پروا

زندہ قومیں اپنی تہذیب و ثقافت ،اجداد کی روایات ، اقدار، تمدن اور معاشرت کو زندہ رکھنے کی کوشش کرتی ہیں
- - - - - - - - -
عنبرین فیض احمد۔ ریاض

- - - - - - - - -

ہر معاشرہ اپنی مخصوص روایات، تہذیب وتمدن اور ثقافت رکھتا ہے اور کسی بھی معاشرے، خطے، قوم یا ملک کی تہذیب و ثقافت نہ صرف اس کی تاریخ کی ترجمان ہوتی ہے بلکہ یہ اس کے تاریخی طرز تعمیر اور معاشرے کی بودوباش کی بھی عکاس ہوتی ہے۔ یقینا کوئی بھی معاشرہ اپنی تہذیب و ثقافت کے تحفظ کے بغیر اپنی تاریخ سے منسلک نہیں رہ سکتا۔ پاکستان دنیا کے ان خوش قسمت ترین ملکوں میں شامل ہے جہاں قدیم ترین تہذیبوں کا ورثہ موجود ہے۔
مہر گڑھ سے لے کر موہنجودڑو ، ہڑپہ، ٹیکسلا جیسی تہذیبوں کا مسکن پاکستان رہا ہے ۔ اس علاقے میں مغل اور برطانوی تہذیبوں کابھی عمل دخل رہا ہے۔ دیکھا جائے تو موجودہ دور میں بھی ان تہذیبوں کے اثرات دکھائی دیتے ہیں۔ دوسری طرف نگاہ دوڑائیں تو سرزمین پاک کو قدرت نے کہیں برف پوش پہاڑوں سے مزین فرمایا تو کہیں لق و دق صحراء دکھائی دیتے ہیں۔ ایک طرف چٹیل میدان ہیں تو دوسری طرف گہرے نیلے سمندر اور کہیں سرسبز و شاداب درختوں کی آبادیاں لہلہاتی نظر آتی ہیں اور کہیں پانی کی بوندبوند کو ترستے صحرائی علاقے۔ پاکستان کے اکثر علاقے دل موہ لینے والے مناظر سے مالا مال ہیں۔ یہاں ایسے مقامات ہیں جن کو ثقافتی ورثے میں شامل کیا جاچکاہے جن میں موہنجودڑو، تخت بھائی کے کھنڈرات، شاہی قلعہ لاہور، شالا مار باغ، مکلی کا قبرستان اور جہلم کا قلعہ شامل ہیں۔ یہ مقامات مختلف ادوار کی مختلف تہذیبوں سے تعلق رکھتے تھے ۔
وطن عزیز میں جو آثار قدیمہ اور تاریخی مقامات پائے جاتے ہیں ان کی حفاظت میں کسی قدر عدم توجہی سے کام لیا جاتا ہے کیونکہ ملک میں کوئی ا یسا ذمہ دار محکمہ موجود نہیں ۔ دیکھا یہ گیا ہے کہ ملکی ترقی کے نام پر بے ہنگم منصوبہ بندی بھی اس ملک کے تاریخی اثاثوں کو برباد کر رہی ہے ۔ اس طرح ہم خود ہی اپنے تاریخی ورثے اور تاریخی مقامات کو نقصان پہنچانے کے ذمہ دار ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا بھر میں ان تاریخی ورثوں اور تاریخی مقامات کے قریب کوئی ایسی عمارتیں تعمیر نہیں کی جاتیں جن سے ان مقامات کو نقصان پہنچے مگر افسوس ہمارے یہاں کسی کو فکر نہیں کہ یہ ہماری پہچان ہے اور قدیم تہذیب و روایات کا حصہ ہے۔ کسی طور ان آثار کو نقصان نہیں پہنچنا چاہئے۔ دھنک کے صفحہ پر جو تصویر شائع کی گئی ہے وہ لاہور شہر کی ہے جس میں یہ واضح کیاگیا کہ سپریم کورٹ نے ایک حکم جاری کر کے واضح کیا تھا کہ حکومت کسی بھی تاریخی ورثے کی تباہی نہیں چاہ سکتی لہٰذا لاہور شہر میں کسی بھی آثار قدیمہ کے قریب کسی بھی قسم کا تعمیراتی کام کیا جائے تو وہ اس سے 200 میٹر کے فاصلے پر ہونا چاہئے تاکہ ان آثار قدیمہ کو کوئی نقصان نہ پہنچ سکے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ لاہور شہر میں اورنج ٹرین منصوبے کے باعث شالامار باغ، دائی انگا کی یادگار، لکشمی مینشن، جی پی او،زیب النساء کی یادگار اور لاہور ہائی کورٹ بلڈنگ کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہے ۔
یہ عمارتیں ہماری تہذیب و روایات اورتمدن کی عکاسی کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ ہمیں اپنی تہدیب و روایات تاریخی عمارتوں کی حفاظت کیلئے کوئی نہ کوئی اقدام کرنا چاہئے تاکہ انہیں باقی رکھا جاسکے۔ اگر ہم ملکوں کی تاریخ کو دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ کسی بھی قوم کے آثار قدیمہ اس کا قیمتی سرمایہ اور قومی ورثہ ہوتے ہیں جو نہ صرف اپنے اندر اس قوم کی تہذیب و ثقافت کی پوری تاریخ سموئے ہوتے ہیں بلکہ اپنے اندر بڑی کشش بھی رکھتے ہیں۔ بالخصوص سیاحوں کے لئے ماضی کے تاریخی کھنڈرات نہایت دلچسپی کا باعث ہوتے ہیں۔ محققین ِآثار قدیمہ ، کھنڈرات سے قدیم تہذیبوں کے راز تلاش کرکے تاریخ مرتب کرتے ہیں۔ زندہ قومیں اپنی تہذیب و ثقافت کو کبھی فراموش نہیں کرتیں بلکہ اپنے ماضی اور آباء واجداد کی روایات ، اقدار، تمدن اور معاشرت کو نہ صرف زندہ رکھنے کی کوشش کرتی ہیں بلکہ ان کی حفاظت اور نسل نو کو ان سے روشناس کرانے اور آئندہ نسلوں تک ان کی منتقلی کو یقینی بنانے کیلئے کوشاں رہتی ہیں۔ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اپنی ثقافت اورتاریخی ورثہ ، قدیم تہذیبوں سے متعارف کراناہمارا قومی فریضہ ہے۔ لاہور کے چوبرجی کی زبوں حالی دیکھ کر نہایت ہی افسوس ہوا ۔ حکومت کو چاہئے کہ سپریم کورٹ کی ہدایت کے مطابق آثار قدیمہ جن میں چوبرجی کابھی نمایاں مقام ہے ، ان کی حفاظت کرے ۔ اس تاجریخی ورثے کو اورنج ریل منصوبے کی زد میں لانے کی کوشش نہیں کرنا چاہئے بلکہ اس ریل کے راستے کو تبدیل کرنے کی کوشش کی جانی چاہئے تاکہ ان آثار قدیمہ کو نقصان نہ پہنچ سکے۔ دنیابھر میں آثار قدیمہ کی حفاظت کی جاتی ہے کیونکہ وہ ان قدیم ثقافتوں پر جو ان کی روایات کو ظاہر کرتی ہیں، ان کی قدر کرتی ہیں۔زندہ قومیں آثار قدیمہ پر فخر کرتی ہیں۔دنیا بھرمیں تاریخی ورثے لاکھو ں، کروڑوں سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنتے ہیں اور یوںان تاریخی مقاما ت سے قیمتی زرمبادلہ کمایاجاتا ہے ۔
ہمارے وطن عزیزمیں معاملہ ذرا برعکس ہے، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہم آثار قدیمہ کی اہمیت و افادیت سے بالکل عاری ہیں گویا ہمیں اپنی ثقافتوں کی فکر ہے نہ اپنی وارثت کی کوئی پروا، نہ اپنی تاریخی نشانیوں کا احساس ہے کہ انہیں محفوظ کیسے رکھنا ہے،نہ کسی اور بات کی خبر۔ موہن جودڑو کو ہی دیکھ لیں جو قدیم نشانیوں میں سے ایک ہے، تہذیب یافتہ قوموں کی نشانی ہے۔ یہاں کے طور طریقے آج کی دنیا میں ایک مثال کے طو رپر پیش کئے جاتے ہیں لیکن ان پر توجہ نہ دے کرہم نے سبھی کچھ تقریباً ختم کر ڈالا ہے۔ بروقت ان کی حفاظت نہ کرکے ہم نے اچھا نہیں کیا۔ اب بھی اگر ہنگامی اقدامات نہ کئے گئے تو جلد یہ بچی کچھی تاریخی نشانیاں بھی مٹی ہوجائیں گی۔ افسوس تو اس بات پر ہے کہ جو رقم ان کی دیکھ بھال کیلئے مختص کی جاتی ہے وہ بھی مختلف غیر ذمہ داران ہڑپ کرجاتے ہیں ۔ یہی حال دوسرے تاریخی مقامات کا ہے۔ یہ سب بہت افسوسناک صورتحال ہے۔ ہمیں اس جانب فوری توجہ دینی چاہئے۔

شیئر: