Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

گلی محلوں میں کرکٹ کے دوران قتل کے بڑھتے واقعات، وجوہات کیا؟

پولیس تاحال مرکزی ملزم کو گرفتار کرنے میں ناکام ہے (فوٹو: اے ایف پی)
16 اکتوبر 2022 کی سہ پہر اسلام آباد کا موسم کافی خوشگوار تھا۔ جناح ایونیو سے ملحقہ سیکٹر جی سیون ٹو کی ایک گلی میں 18 سالہ احمد علی عصر کی نماز پڑھ کر آیا تو اپنے ہم عمر کزنز کے ساتھ کرکٹ کھیلنا شروع کر دی۔ 
تھوڑی دیر بعد ایک شاٹ پر گیند ایک گھر میں چلی گئی۔ احمد اور اس کے کزنز گیند واپس لینے گئے تو پڑوسیوں کے لڑکے انیق اور اویس ان سے لڑ پڑے۔
جب تکرار بڑھی تو انہوں نے احمد علی اور اس کے کزن حیدر علی پر پستول سے فائرنگ کر دی جس کے نتیجے میں احمد ہلاک اور حیدر علی زخمی ہو گیا۔
احمد علی کے والد خالد پرویز کا کہنا ہے کہ پڑوسی انیق اور اویس نے گیند لینے کے لیے جانے والے احمد کے ساتھ گالم گلوچ کی اور اس کے بعد فائرنگ کر دی۔
کھیل کے میدان کا لڑائی جھگڑے اور قتل گاہ میں تبدیل ہونے کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔ ہر کچھ عرصے بعد پاکستان کے کسی نہ کسی کونے سے ایسی خبر سامنے آ جاتی ہے کہ کھیل کے دوران تلخ کلامی پر اتنے افراد جان سے گئے یا زخمی ہو گئے۔
پچھلے ماہ نوشہرہ میں کرکٹ میچ کے دوران معمولی تکرار پر ایک کھلاڑی قتل ہو گیا تھا۔ اسی طرح رواں برس مئی میں ڈسکہ میں ٹیپ بال کرکٹ میچ کے دوران تلخی پر حمزہ بٹ کو ہلاک کر دیا گیا تھا۔
سال 2022 کے آغاز سے اب تک میڈیا میں کم از کم چھ ایسے واقعات رپورٹ ہو چکے ہیں جہاں کرکٹ کھیلتے ہوئے معمولی سی لڑائی پر قتل ہوئے۔ 
مقامی کرکٹ میچز کے منتظم زاہد عباسی اس حوالے سے کہتے ہیں کہ کھیلوں کے مقابلوں میں لڑائی جھگڑوں اور قتل کے واقعات اس بات کی غمازی کرتے ہیں کہ کھیلوں کے مواقع کم ہیں اور لوگ ان سے جذباتی طور پر اتنے جڑ جاتے ہیں کہ ذرا سی اونچ نیچ بھی لڑائی جھگڑے تک پہنچ جاتی ہے اور جانیں تک ضائع ہو جاتی ہیں۔
انہوں نے اردو نیوز کو بتایا کہ مقامی سطح پر ہونے والے میچز میں اختلاف اور تلخ کلامی ایک عام سی بات ہے، تاہم صورت حال تب تشویشناک ہو جاتی ہے جب گالم گلوچ شروع ہوتی ہے اور اس پر کوئی ایک فریق فائرنگ شروع کر دے۔ 
ماہرین نفسیات کے مطابق ایسے واقعات معاشرے میں رواداری اور برداشت کی کمی کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔

’معمولی تنازع پر قتل جیسے واقعات مجرمانہ ذہنیت کے فروغ کی نشاندہی کرتے ہیں‘ (فوٹو: اے ایف پی)

ماہر نفسیات ڈاکٹر سُمبل سکندر نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’معاشرے میں رواداری کے فقدان کے باعث انتہائی قدم اٹھا لیے جاتے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ایسے تمام واقعات کی وجوہات تلاش کر کے اس بارے میں آگاہی پھیلانے کی ضرورت ہے جبکہ تعلیم کے بنیادی نظام میں بہتری لائی جائے۔
ماہر قانون اور احمد علی کے مقدمے میں وکیل قیصر امام نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ معمولی تنازعے پر قتل جیسے واقعات ہمارے معاشرے میں مجرمانہ ذہنیت کے فروغ کی بھی نشاندہی کرتے ہیں۔
ان کے مطابق ’منشیات کی لت بھی ایسے جرائم میں اضافے کا باعث بنتی ہے۔‘
قیصر امام کا کہنا تھا کہ نوجوان نسل کی مناسب تربیت کے ذریعے ایسے واقعات کی روک تھام کی جا سکتی ہے۔
احمد کے مقدمے کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ پولیس تاحال مرکزی ملزم کو گرفتار نہیں کر سکی ہے۔
انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’حیران کن طور پر اس کیس میں ملزموں کی والدہ نے محض ایک کرکٹ بال پر جھگڑے میں اپنے بیٹوں کو اشتعال دلایا جس کے نتیجے میں ایک نوجوان کی موت واقع ہو گئی۔‘ 
معمولی تنازعات پر قتل کے حوالے سے اسلام آباد پولیس کے ایک ترجمان نے اردو نیوز کو بتایا کہ لوگوں میں برداشت ختم ہو گئی ہے اور مکالمے کے ذریعے مسائل کے حل کا رجحان دن بدن کم ہو رہا ہے۔  

پولیس ترجمان کے مطابق قتل میں ملوث ملزمان کی والدہ روشن بی بی جوڈیشل ریمانڈ پر اڈیالہ جیل میں ہیں (فوٹو: اے ایف پی)

احمد کے والد خالد پرویز اب بھی شدید غمزدہ ہیں۔ ان کی والدہ بھی بیٹے کی جدائی کے صدمے سے باہر نہیں آ سکیں۔  
پولیس ترجمان کا کہنا تھا کہ پولیس پہلے دن سے ملزمان کی جلد از جلد گرفتاری کے لیے کوشاں ہے۔
’قتل میں ملوث ملزمان کی والدہ روشن بی بی جوڈیشل ریمانڈ پر اڈیالہ جیل میں ہیں، جبکہ دوسرا ملزم اویس پولیس کی تحویل میں ریمانڈ پر ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ دوسرے ملزم کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جا رہے ہیں اور جلد ہی گرفتار کر لیا جائے گا۔ 

شیئر: