دلچسپ بات یہ ہے کہ عربی میں ’مبالغہ‘ کے معنی میں ’گپ‘ شامل نہیں۔ (فوٹو: پکسا بے)
کہانیاں ہی سہی سب مبالغے ہی سہی
اگر وہ خواب ہے، تعبیر کر کے دیکھتے ہیں
شعر احمد فراز صاحب کا ہے اور جس مسلسل غزل سے ہے اُس کا ہر شعر لاجواب ہے۔ سرِدست اس شعر میں لفظ ’مبالغہ‘ اور ’تعبیر‘ سے بحث مطلوب ہے۔
اردو میں ’مبالغہ‘ کے معنی بات کو بڑھا چڑھا کر کرنے کے ہیں۔ ’مبالغہ آرائی‘، ’مبالغہ پروری‘ اور ’مبالغہ پردازی‘ جیسی تراکیب اسی جانب اشارہ کرتی ہیں۔ جب کہ ایسا بیان جس میں گپ بھی شامل ہو ’مبالغہ آمیز‘ کہلاتا ہے۔
اس باب میں دلچسپ بات یہ ہے کہ عربی میں ’مبالغہ‘ کے معنی میں ’گپ‘ شامل نہیں، یہ معنی اردو نے کنایۃً پیدا کر لیے ہیں۔ عربی میں اس کے معنی ’حد سے بڑھنا‘، ’آخری حد کو پہنچنا‘ اور ’پوری کوشش کرنا‘ کے ہیں۔
معنی کے عربی پس منظر میں جب ہم کہتے ہیں کہ فلاں لفظ میں مبالغہ کا صیغہ پایا جاتا ہے، تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ اس لفظ میں انتہائے کمال کی طرف اشارہ ہے۔ مثلاً رحم سے ’رحمان‘ یا غفر سے ’غفران‘ مبالغے کا صیغہ ہے۔ باالفاظِ دیگر ’رحمان‘ اور ’غفران‘ میں ’بلاغت‘ پائی جاتی ہے۔
’مبالغہ‘ کا مادہ ’ب،ل،غ‘ ہے، جب کہ اس مادہ سے بننے والے تمام الفاظ میں عام طور پر ’پہنچنے اور پہنچانے‘ کا مفہوم پایا جاتا ہے۔ اس معنی میں ’ابلاغ‘ زیادہ مشہور ہے جو ’ذرائعِ ابلاغ‘ کی ترکیب کے ساتھ خود بھی دور دور تک پہنچ گیا ہے۔
ہر وہ خوش گفتار یا فصیح البیان جو اپنی بات لوگوں تک بخوبی پہنچانے کا فن جانتا ہو، ’بلیغ‘ کی تعریف میں آتا اور ’مُبَلِّغ‘ کہلاتا ہے۔
صوری اعتبار اس ’مُبَلِّغ‘ کا جوڑی دار لفظ مَبلَغ ہے، جس کے لفظی معنی ’انتہا، معیار اور کمال‘ کے ہیں، تاہم اس کے مجازی معنی میں ’نقد رقم‘ اور ’روپیہ‘ شامل ہیں۔ ہمارے بعض افراد لین دین کے موقع پر بہت اہتمام سے ’مَبلَغ‘ کے بجائے غلط طور پر ’مُبَلِّغ‘ کا لفظ ادا کرتے اور اپنی بلاغت کی داد سمیٹے ہیں۔
اس سلسلے کا ایک لفظ ’بالغ‘ ہے، جس کے لفظی معنی ’پہنچنے والا‘ کے ہیں جب کہ اصطلاح میں ہر وہ شخص جو سمجھداری اور سوجھ بوجھ کی عمر کو پہنچ جائے ’بالغ‘ کہلاتا ہے، اسی لیے عہدِ شباب کو ’بُلُوغ‘ اور ’بلوغت‘ کہتے ہیں۔ ویسے اس ’بالغ‘ سے ایک ترکیب ’بالغ نظری‘ بھی ہے جس کے متعلق شاعر کہہ گیا ہے:
شرمندہ کیا جوہرِ بالغ نظری نے
اس جنس کو بازار میں پوچھا نہ کسی نے
اب کچھ ذکر لفظ ’تعبیر‘ کا ہوجائے۔ ’تعبیر‘ کو لفظ ’اَلعَبرُ‘ سے نسبت ہے اور ’عَبر‘ کے معنی ایک حالت سے دوسری حالت تک پہنچنے کے ہیں۔ ان معنی کو ذہن میں رکھیں اور خواب کے تعلق سے لفظ ’تعبیر‘ پر غور کریں آپ خود بھی معنی کی تہہ تک پہنچ جائیں گے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اردو میں رائج لفظ ’عُبُور‘ بھی ’تعبیر‘ کا رشتے دار ہے۔ عربی میں ’عُبُور‘ کا لفظ خاص طور پر پانی کے پار اترنے کے معنی میں برتا جاتا ہے۔ اب چاہے پانی کے اُس پار آپ تیر کر جائیں، پُل سے جائیں، کشتی پر سوار ہوں یا پھر کوئی بھی دوسرا ذریعہ استعمال کریں بہرحال آپ کا دوسری طرف جانا ’عبور‘ کہلائے گا۔
اردو میں ’عبور کرنا‘ کے معنی ’پار کرنا، پار اترنا اور گزرنا‘ کے ہیں، جب کہ ’عبور حاصل کرنا‘ کے معنی مہارت پیدا کرنے کے ہیں۔ اس لفظ میں ’مہارت‘ کے معنی باربار عبور کرنے یعنی گزرنے کی رعایت سے پیدا ہوئے ہیں۔
اس سے پہلے کہ آگے بڑھیں ’عبور‘ کی رعایت سے ’رشید امکان‘ کا شعر ملاحظہ فرمائیں:
عبور کر نہ سکا میں غرور دریا کا
ہے سرخیوں میں برابر قصور دریا کا
جس طرح کبھی اس بات پر دھیان نہیں جاتا کہ ’تعبیر‘ اور ’عبور‘ ہم ریشہ الفاظ ہیں ایسے ہی کبھی یہ خیال نہیں آتا ہے کہ ’عبرت‘ کا لفظ بھی اسی گھرانے کا فرد ہے۔ ’عبرت‘ کے معنی آنسو کے ہیں۔
تاہم اردو میں عبرت کا لفظ ’آنسو‘ کے معنی نہیں دیتا، بلکہ نصیحت، خوف اور سبق وغیرہ کے معنی میں برتا جاتا ہے۔ اس لیے ہر وہ واقعہ، سانحہ یا حادثہ جو باعثِ نصیحت ہو ’عبرت انگیز‘ اور ’عبرت آموز‘ کہلاتا ہے۔ اس ’عبرت‘ کی رعایت سے ’محفوظ الرحمان عادل‘ خوب کہہ گئے ہیں: