Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

حکومت اور شوگر ملز مالکان کے درمیان تنازع، چینی مزید مہنگی ہونے کا خدشہ

حکام کے مطابق چینی کی قیمت میں 30 روپے کا اضافہ ہو سکتا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
وفاقی حکومت کی جانب سے مہنگائی پر قابو پانے کے تمام تر دعوؤں اور بالخصوص چینی کی قیمتوں کو 70 روپے تک لانے کا کریڈٹ لینے کے باوجود اس وقت ملک میں عام مارکیٹ میں چینی 90 روپے سے لے کر 120 روپے تک فروخت ہو رہی ہے۔  
تاہم حکومت نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اگر شوگر ملوں نے بروقت کرشنگ شروع نہ کی اور چینی کی برآمد کی اجازت دے دی گئی تو ملک میں چینی کی قیمتوں میں اضافے اور قلت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ 
اردو نیوز نے اسلام آباد اور صوبائی دارالحکومتوں میں چینی کی قیمتوں سے متعلق معلومات حاصل کی ہیں جس کے مطابق یوٹیلیٹی سٹور پر چینی اگرچہ 70 روپے میں دستیاب ہے لیکن وہ محدود مقدار میں ہی فروخت کی جا رہی ہے۔
دوسری جانب اوپن مارکیٹ میں صوبہ پنجاب میں چینی کی قیمت 90 سے 110 روپے فی کلو گرام، سندھ میں چینی کی قیمت 100 سے 115روپے فی کلو گرام، خیبر پختونخوا میں چینی کی قیمت 105 سے 115 روپے فی کلو گرام اور بلوچستان میں چینی کی قیمت 110 سے 120 روپے فی کلو گرام فروخت ہو رہی ہے۔ 
وزارت صنعت و پیداوار کے حکام کا کہنا ہے کہ چینی برآمد کر کے ایک بااثر طبقہ کمائی کرنے کے چکر میں ہے اور اس مقصد کے لیے وفاقی حکومت پر چینی کی برآمد کی اجازت دینے کے لیے دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔
حکام کے مطابق چینی برآمد کر کے مال بنایا جائے گا اور بعد میں مصنوعی قلت پیدا کر کے مارکیٹ میں چینی مزید 30 روپے کلو تک مہنگی کر دی جائے گی اور صورت حال سابق دور میں پیدا ہونے والی صورت حال کی طرف چلی جائے گی۔ 

سیلاب کے باعث سندھ میں گنے کی پیداوار میں 40 فیصد کمی کا خدشہ ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

اس حوالے سے شوگر ملز ایسوسی ایشن کے چیئرمین عاصم غنی عثمان کا کہنا ہے کہ ’اس وقت عالمی مارکیٹ میں چینی کی قیمت پاکستان کی نسبت زیادہ ہے۔ شوگر ملوں کے پاس 12 لاکھ ٹن چینی پہلے سے موجود ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ کرشنگ شروع کرنے سے پہلے سٹاک میں موجود چینی کو برآمد کیا جائے کیونکہ ہماری ملیں اس وقت خسارے میں چل رہی ہیں۔‘  
 ان کا کہنا تھا کہ ’اگر حکومت امدادی قیمت کا اعلان نہیں کرتی اور اس کے ساتھ چینی برآمد کرنے کی اجازت نہیں دیتی تو ایسی صورت میں ہم کرشنگ سیزن کا آغاز نہیں کریں گے۔ اس سلسلے میں حکومت کے ساتھ مذاکرات کے دو دور ناکام ہو چکے ہیں۔‘  
دوسری جانب وفاقی وزیر خوراک و زراعت طارق بشیر چیمہ کا کہنا ہے کہ شوگر ملز مالکان سے 12 لاکھ ٹن چینی کے سٹاک کا معائنہ کروانے کا کہا ہے۔
’اگر اس بات کی تصدیق ہو گئی کہ ان کے پاس اتنا ذخیرہ موجود ہے تو ہم چینی برآمد کرنے کی اجازت دے دیں گے۔ بصورت دیگر اجازت نہیں دی جا سکتی کیونکہ اس سے چینی کا بحران پیدا ہونے کا خدشہ ہے۔‘  
انھوں نے کہا کہ ’شوگر ملز ایسوسی ایشن نے سٹاک کی مجموعی صورت حال سے مطمئن نہیں کیا۔ سیلاب کے باعث سندھ میں 40 فیصد گنے کی پیداوار میں کمی کا خدشہ ہے۔ جب تک سٹاک کی صورتحال واضح نہیں کی جاتی برآمد کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔ ایسا نہ ہو کہ گنا کم پیدا ہو اور ہمیں چینی درآمد کرنی پڑ جائے۔ مہنگی چینی باہر سے درآمد کرکے کیسز بھگتنا نہیں چاہتے۔‘

عام مارکیٹ میں چینی 90 روپے سے 120 روپے تک فروخت ہو رہی ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

موجودہ صورتحال میں مارکیٹ پر نظر رکھنے والے ماہرین کا بھی موقف ہے کہ کرشنگ بر وقت شروع نہ ہونے سے چینی کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔
اسی صورتحال کے تناظر میں یوٹیلیٹی سٹورز کارپوریشن نے وزیراعظم کے ریلیف پیکیج کے تحت چینی کی دستیابی یقینی بنانے کے لیے مزید 50 ہزار میٹرک ٹن چینی خریدنے کا فیصلہ کیا ہے۔ کارپوریشن کے مطابق ان کے پاس چینی کا وافر مقدار میں ذخیرہ موجود ہے۔  
چینی کی خریداری کے لیے ٹینڈر جاری کر دیا گیا ہے۔ ٹینڈر کے تحت بولیاں آٹھ دسمبر تک طلب کی گئی ہیں جو اسی روز ہی کھولی جائیں گی۔  

شیئر: