حجاب کے قانون کا جائزہ لیا جا رہا ہے: ایرانی اٹارنی جنرل
ایران نے امریکہ، برطانیہ، اسرائیل اور کرد گروہوں پر ملک میں ’ہنگامے‘ کروانے کا الزام لگایا (فوٹو: اے ایف پی)
ایران میں اٹارنی جنرل نے کہا ہے کہ پارلیمنٹ اور عدلیہ حجاب کے حوالے بنائے گئے قانون کا جائزہ لے رہی ہے۔
ایران دو ماہ سے اس قانون کے خلاف احتجاجی مظاہرے ہو رہے ہیں۔ مظاہرین نے اپنے حجاب جلاتے رہے ہیں اور حکومت کے خلاف نعرے بازی کرتے رہے ہیں۔
فرانسیسی نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق ایران میں کرد خاتون مہسا امینی کی پولیس کی حراست میں ہلاکت کے بعد بہت سی خواتین نے حجاب پہننا چھوڑ دیا ہے۔
محمد جعفر منتظری نے کہا کہ ’پارلیمنٹ اور عدلیہ دونوں اس معاملے پر کام کر رہی ہیں اور جائزہ لے رہی ہیں کہ کیا اس قانون میں تبدیلی کی ضرورت ہے۔‘
انہوں نے یہ واضح نہیں کیا کہ قانون میں کیا تبدیلی ہو گی، لیکن کہا کہ جائزہ کمیٹی نے بدھ کو پارلیمان کے ثقافتی کمیشن سے ملاقات کی اور ایک یا دو ہفتوں تک نتیجہ سامنے آ جائے گا۔
جب حجاب کا قانون لاگو کیا گیا تو بہت سی خواتین تنگ جینز اور ڈھیلے ڈھالے اور رنگ برنگے حجابوں میں نظر آئیں۔ لیکن رواں برس جولائی میں ایرانی صدر ابراہیم ریئسی نے اس قانون کو سختی سے لاگو کرنے کا حکم دیا۔
تاہم بہت سی خواتین نے اس قانون کی پاسداری نہیں کی تھی۔
ایران نے امریکہ، برطانیہ، اسرائیل اور کرد گروہوں پر ملک میں ’ہنگامے‘ کروانے کا الزام لگایا ہے۔
ایرانی پاسدرانِ انقلاب کے ایک جنرل نے رواں ہفتے پہلی مرتبہ کہا ہے کہ مہسا امینی کی ہلاکت کے بعد جاری ہونے والے مظاہروں میں تین سو سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
تاہم ناروے کے شہر اوسلو میں موجود ’ایران ہیومن رائٹس‘ نے منگل کو کہا کہ ان مظاہروں میں سکیورٹی فورسز نےکم از کم 448 افراد کو ہلاک کیا ہے۔