پرویز الٰہی کی برطرفی کا معاملہ، لاہور ہائی کورٹ کا نیا لارجر بینچ تشکیل دے دیا گیا
درخواست میں کہا گیا کہ گورنر کو اختیار نہیں کہ وہ غیر آٸینی طور پر وزیر اعلٰی کو ڈی نوٹیفاٸی کر سکیں۔ (فائل فوٹو: پی آئی ڈی)
چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے پرویز الٰہی کی درخواست پر سماعت کے لیے نیا لارجر بینچ تشکیل دے دیا ہے۔
جمعے کو جسٹس عابد شیخ کی سربراہی میں بننے والے نئے لارجر بینچ میں جسٹس چوہدری محمد اقبال، جسٹس طارق سلیم شیخ، جسٹس عاصم حفیظ اور جسٹس مزمل اختر شبیر شامل ہیں۔
قبل ازیں پرویز الٰہی کے ڈی نوٹیفائی ہونے کے خلاف دائر درخواست کی سماعت کرنے والا بینچ ٹوٹ گیا تھا۔
لارجر بینچ کے رکن جسٹس فاروق حیدر نے کیس کی سماعت سے معذرت کر لی تھی۔
انہوں نے کہا تھا کہ ’ذاتی وجوہات کی بنیاد پر اس کیس کی سماعت نہیں کر سکتا۔‘
جسٹس فاروق حیدر کے بینچ کا حصہ نہ بننے کے فیصلے کے بعد لارجر بینچ کے سربراہ جسٹس عابد شیخ نے نیا بینچ تشکیل دینے کے لیے فائل چیف جسٹس کو ارسال کر دی تھی۔
جسٹس فاروق حیدر کی جگہ جسٹس عاصم حفیظ کو بینچ میں شامل کیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ جمعے کو ہی سابق وزیراعلٰی چوہدری پرویز الٰہی نے گورنر پنجاب کی جانب سے اعتماد کا ووٹ نہ لینے پر ڈی نوٹیفائی کیے جانے کے خلاف ہائی کورٹ میں پیٹیشن دائر کی تھی۔
پرویز الٰہی نے درخواست میں کیا موقف اپنایا؟
چوہدری پرویز الٰہی کی جانب سے دائر درخواست پانچ صفحات پر مشتمل تھی۔
درخواست میں کہا گیا تھا کہ گورنر نے اعتماد کا ووٹ لینے کے لیے وزیراعلٰی کو خط لکھا ہی نہیں۔
’عدالت گورنر پنجاب کے نوٹیفیکیشن کو کالعدم قرار دے۔‘
درخواست کے مطابق ’خط سپیکر کو لکھا گیا وزیراعلٰی کو نہیں۔ ایک اجلاس کے دوران گورنر دوسرا اجلاس طلب نہیں کر سکتے۔‘
’گورنر کو اختیار نہیں کہ وہ غیر آٸینی طور پر وزیر اعلٰی کو ڈی نوٹیفاٸی کر سکیں۔‘
اس سے قبل چوہدری پرویز الہی نے رات گئے اپنے قانونی مشیروں کو پیٹیشن تیار کرنے کی ہدایت کی تھی۔
گورنر پنجاب کا حکم نامہ
یاد رہے کہ جمعرات کو رات گئے پاکستان کے صوبہ پنجاب کے گورنر بلیغ الرحمان نے وزیر اعلٰی پرویز الٰہی کو ان کے عہدے سے ہٹانے کا حکم نامہ جاری کر دیا تھا۔
گورنر پنجاب نے پرویز الٰہی کو ڈی نوٹیفائی کرنے کا آرڈر اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے جاری کیا۔
اس آرڈر کے مطابق گورنر نے 19 دسمبر کو وزیراعلٰی کو اعتماد کا ووٹ لینے کی ہدایت کی۔
حکم نامے کی عبارت کے مطابق ’21 دسمبر سہ پہر چار بجے کے لیے وزیراعلٰی کو اعتماد کا ووٹ لینے کا کہا گیا۔ تاہم 48 گھنٹے گزرنے کے باوجود انہوں نے اعتماد کا ووٹ نہیں لیا۔ لہذا آئین کے آرٹیکل 30 کی رو سے کابینہ کو ختم کیا جاتا ہے۔‘