Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پرویز الہی کو ہٹانے کے خلاف حکم امتناع میں ایک دن کی توسیع، سماعت کل تک ملتوی  

بیرسٹر علی ظفر نے مزید کہا کہ اعتماد کا ووٹ لینے کا کہنے کے لیے پورا طریقہ کار موجود ہے۔ (فوٹو: ٹوئٹر)
لاہور ہائی کورٹ کے فل بینچ نے  وزیراعلی پرویز الہی کو عہدے سے ہٹانے کے احکامات کو معطل کرنے  کے حکم میں  مزید ایک دن کی توسیع کرتے ہوئے کیس کی سماعت ایک روز کے لیے ملتوی کر دیا ہے۔
عدالت نے اپنے حکم میں کہا ہے کہ اسمبلی تحلیل نہ کرنے کی یقین دہانی پر عمل درآمد کیا جائے۔
لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس عابد عزیز شیخ کی سربراہی میں پانچ رکنی فل بینچ نے  درخواست پر سماعت شروع کی تو بینچ نے فریقین سے پوچھا کہ کیا معاملہ حل نہیں ہوا؟
گورنر پنجاب کے وکیل خالد اسحاق  نے بتایا کہ یہ اعتماد کا ووٹ لیں گے تو معاملہ حل ہو گا۔ عدالت نے استفسار کیا کہ آپ کے پاس کیا آفر ہے؟ گورنر کے وکیل نے کہا کہ ’ہم نے آفر دی تھی کہ دو سے تین دنوں میں اعتماد کا ووٹ لیں  مگر انہوں نے ہماری آفر نظر انداز کردی۔‘
دوسری طرف وزیر اعلی چوہدری پرویز الٰہی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ ’ہم چاہتے ہیں کہ عدالت گورنر کی جانب سے جاری نوٹیفکیشن کی درخواست  پر میرٹ پر فیصلہ کرے۔‘
بینچ کے سربراہ جسٹس عابد عزیز شیخ نے استفسار کیا تو کیا آپ اعتماد کا ووٹ لینے کی آفر قبول نہیں کر رہے؟
آپ کا اعتراض تھا کہ گورنر نے اعتماد کے ووٹ کے لیے مناسب وقت نہیں دیا وہ تو دینے کو تیار ہیں۔
اس موقع پر جسٹس عاصم حفیظ نے ریمارکس دیے کہ ’اس بات میں تو کوئی شک ہی نہیں کہ وزیر اعلی کو 24 گھنٹے اکثریت کا اعتماد حاصل ہونا چاہیے۔‘
کسی تصفیے پر نہ پہنچنے کی بنا پر عدالت نے باقاعدہ کیس کی سماعت شروع کی۔
 پرویز الہی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے گورنر پنجاب کے وزیر اعلیٰ کو ڈی نوٹیفائی کرنے کے نوٹیفکیشن کی قانونی حیثیت پر دلائل شروع کیے اور نشاندہی کی کہ  رات کی تاریکی میں نوٹیفکیشن جاری کرکے کہا گیا کہ کل اعتماد کا ووٹ لیں۔ اعتماد کے ووٹ کے لیے مناسب وجوہات ہونی چاہیے۔

جسٹس عابد عزیز شیخ نے پرویز الہی کے وکیل سے استفسار کیا کہ کیا آپ اعتماد کا ووٹ لینے کی آفر قبول نہیں کر رہے؟ (فوٹو: ٹوئٹر)

سماعت کے دوران بینچ نے قرار دیا کہ گورنر کو مناسب وقت دینا چاہیے۔ بیرسٹر علی ظفر نے اس بات کی بھی نشاندہی کی کہ گورنر کے اعتماد لینے کے معاملے پر سپیکر اسمبلی کی رولنگ کو چیلنج ہی نہیں کیا گیا۔
بیرسٹر علی ظفر نے مزید کہا کہ اعتماد کا ووٹ لینے کا کہنے کے لیے پورا طریقہ کار موجود ہے یہ ممکن نہیں ہے گورنر اچانک صبح اٹھ کر کہے کہ اعتماد کا ووٹ لیں ،پانچ ماہ قبل وزیر اعلی نے اسمبلی میں اپنی اکثریت دکھائی تھی۔
’آئین میں اسمبلی توڑنے کا اختیار منتخب نمائندے یعنی وزیر اعلی کو دیا گیا ہے۔ وزیراعلی گورنر کو اسمبلی توڑنے کی ایڈوائز جاری کرے گا اور 48 گھنٹے میں اسمبلی تحلیل ہوجائے گی۔‘
موجودہ کیس میں گورنر نے 19 دسمبر کو اعتماد کا ووٹ لینے کا کہا۔ اس موقع پر جسٹس عابد عزیز شیخ نے استفسار کیا کہ اگر گورنر کہتے کہ اعتماد کا ووٹ 10 دن میں لیں تو پھر کیا ہوتا؟
علی ظفر نے عدالت کو بتایا کہ 19 دسمبر کو پہلے تحریک عدم اعتماد آئی۔ اس کے بیس منٹ بعد گورنر نے بھی اپنا حکم جاری کردیا اس ساری کہانی کا مقصد اسمبلی کی تحلیل سے روکنا تھا 23 دسمبر کو عدم اعتماد کی تحریک واپس لے لی گئی۔
بینچ نے ریمارکس دیے کہ آپ کے تمام دلائل کے نچوڑ میں دو چیزیں سمجھے ہیں  ایک آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ گورنر نے اعتماد کا ووٹ لینے کے لیے مناسب وقت نہیں دیا۔ دوسرا آپ یہ کہہ رہے ہیں کہ گورنر نے جو نوٹیفکیشن جاری کیا وہ غیر قانونی ہے۔
عدالتی وقت ختم ہونے پر بینچ نے کیس کی سماعت جمعرات صبح نو بجے تک ملتوی کرتے ہوئے کہا کہ اس کیس کی روزانہ کی بنیاد پر سماعت ہو گی جبکہ گورنر کے وزیر اعلی کو برطرف کرنے کے حکم کی معطلی میں بھی عدالت نے ایک روز کی توسیع کر دی۔

شیئر: