Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اعتماد کا ووٹ: پنجاب کا سیاسی بحران ماضی کا ری پلے؟

لاہور ہائی کورٹ نے عبوری حکم نامے کے ذریعے وزیر اعلی پرویز الہی کو بحال کر دیا۔ (فوٹو: ٹوئٹر)
پنجاب اسمبلی میں تحریک انصاف اپنے حلیف وزیراعلی پرویز الہی کے لیے اعتماد کا ووٹ اعلان کے باوجودہ 11 جنوری سے پہلے نہیں لے سکی اور صوبائی اسمبلی کی قسمت پر چھائی بے یقینی کی دھند  کم ہونے کے بجائے گہری ہوتی جارہی ہے۔
اعتماد کا ووٹ بادی النظر میں سادہ سی پارلیمانی اور سیاسی مشق معلوم ہوتی ہے۔ ایک منتخب وزیر اعلی کے لیے ممبران کی سادہ اکثریت کے اظہار اعتماد کی کاروائی کوئی مشکل  مرحلہ نہیں ہونا چاہیے۔
مگر پاکستانی سیاست کی مخصوص ہیئت اور اقتدار کی راہداریوں میں جوڑ توڑ کے حربوں کی روایت اور روش کی اپنی الگ ہی تاریخ ہے۔ جسے سامنے رکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اب اسمبلی کے فلور پر ممبران کی گنتی بساط سیاست کا اہم مہرہ بن چکی ہے۔
تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی طرف سے 17 دسمبر کو پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں کی تحلیل کے اعلان کی تاریخ کے  تیسرے روز گورنر پنجاب نے وزیراعلی کو اعتماد کا ووٹ لینے کا حکم دیا تھا۔
پنجاب اسمبلی کے سپیکر نے تکنیکی بنیادوں پر گورنر کے حکم کو غیر مؤثر کرنے کی کوشش کی۔ نتیجتاً 22 دسمبر کو گورنر نے آئین کے آرٹیکل 133  کے تحت وزیر اعلی کو ان کے عہدے سے ہٹانے اور صوبائی کابینہ تحلیل کرنے کا فرمان جاری کیا۔
اگلے روز لاہور ہائی کورٹ نے عبوری حکم نامے کے ذریعے وزیر اعلی پرویز الہی کو بحال کر دیا۔ ساتھ ہی انہیں اسمبلی کی تحلیل سے بھی روک دیا۔ اب صوبائی اسمبلی کی تحلیل، اعتماد کے ووٹ کا معاملہ اور صوبائی حکومت کا مستقبل عدالتی کارروائی سے منسلک اور مشروط ہو گیا ہے۔
اس وقت یہ معاملہ لاہور ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے۔
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں صوبائی حکومتوں میں عدم اعتماد کے ووٹ کا وجہ نزاع  بننے کا یہ پہلا واقعہ نہیں ہے۔
تحریک انصاف پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں کو تحلیل کرکے وفاقی حکومت کو الیکشن پر مجبور کرنا چاہتی ہے۔

1993 میں وزیراعلی پنجاب رہنے والے میاں منظور وٹو اور چودھری پرویز الٰہی کی حکومتوں میں بھی مماثلت پائی جاتی ہے۔ (فوٹو: فیس بک)

یہ دلچسپ امر ہے کہ ماضی میں انہی دو صوبوں میں صوبائی گورنر اور وزیر اعلٰی کے درمیان اسی طرح کی سیاسی، دستوری اور عدالتیں کشمکش بپا رہ چکی ہے۔
اس سے بڑھ کر سیاسی اتفاق کا مقام یہ ہے کہ موجودہ تناؤ کے مرکزی کردار چوہدری پرویز الہی ماضی میں پنجاب کے دو سیاسی اور آئینی بحرانوں میں ایک اہم فریق کے طور پر شامل رہے ہیں۔

منظور وٹو اعتماد کا ووٹ کیوں نہ لے سکے؟    

1993 میں وزیراعلی پنجاب رہنے والے میاں منظور وٹو اور چودھری پرویز الٰہی کی حکومتوں میں بھی مماثلت پائی جاتی ہے۔ موجودہ وزیر اعلی پنجاب اپنی  پارٹی کے 10  اراکین کے ساتھ تحریک انصاف کی اکثریتی پارٹی کے اتحادی وزیراعلی ہیں۔

تحریک انصاف پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلیوں کو تحلیل کرکے وفاقی حکومت کو الیکشن پر مجبور کرنا چاہتی ہے۔ (فوٹو:  ٹوئٹر)

30 برس قبل منظور وٹو مسلم لیگ جونیجو کے 18 ایم پی ایز کے ساتھ پیپلزپارٹی کے اتحادی وزیر اعلی تھے۔
اس دور کی صوبائی اسمبلی میں مسلم لیگ نون نے 103 نشستیں جیتی تھیں۔ اس کی حریف پاکستان پیپلز پارٹی کے 95  ممبران اسمبلی تھے۔ اسی کم فرق نے میاں منظور وٹو کے لیے وزارت اعلی  کی راہ ہموار کی۔
پاکستان ڈیموکریٹک فرنٹ کی سیاسی سمجھوتوں پر قائم اتحادی حکومت میں بڑھتی رنجشوں اور رقابتوں نے سیاسی فاصلے بڑھا دیے۔
اسی کا نتیجہ تھا کہ 5 ستمبر 1995 کو صوبائی گورنر جنرل )ریٹائرڈ( سروپ خان نے صدر فاروق لغاری کو صوبے میں گورنر راج نافذ کرنے کی سفارشات ارسال کی۔ اسی روز صدر نے آرٹیکل 234 کے تحت گورنر کو اختیارات سنبھالنے کا حکم دے دیا۔
11  ستمبر 1995 کی شب گورنر نے اگلی دوپہر صوبائی اسمبلی کا اجلاس بلا  کر منظور وٹو کو اعتماد کا ووٹ لینے کا کہا۔
دوسرے روز ہونے والے اجلاس میں وزیراعلیٰ نے شرکت ہی نہیں کی۔ سپیکر اسمبلی حنیف رامے کی طرف سے اعتماد کے ووٹ کے حصول میں ناکامی کی رپورٹ موصول ہونے کے بعد گورنر نے وزیراعلی منظور وٹو اور ان کی کابینہ کی برطرفی کا نوٹفکیشن جاری کر دیا۔
اتحادی وزیراعلی سے جان چھڑانے کے باوجود پیپلز پارٹی کے لیے پنجاب کی وزارت اعلی کا خواب اس کی موجودہ اتحادی مسلم لیگ ن نے ناکام بنا دیا۔
اپنی روایتی حریف کو تخت لاہور سے دور رکھنے کے لیے مسلم لیگ ن نے جونیجو گروپ کے عارف نکئی کے نئے وزیراعلی بننے کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہیں ڈالی۔
بلکہ ان کے مد مقابل اپنے امیدوار کے کاغذات واپس لے لیے۔ یہ امیدوار کوئی اور نہیں پنجاب کے موجودہ وزیر اعلی چودھری پرویز الٰہی تھے۔

عدالتی فیصلہ بھی بحران نہ ٹال سکا      

میاں منظور وٹو نے گورنر کی طرف سے اپنی برطرفی کے حکم کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کیا۔ ان کی طرف سے معروف قانون دان ایس ایم ظفر مقدمے کی پیروی کر رہے تھے۔

پروزیر الہی نے گورنر کی جانب سے اپنی برطرفی کا حکمنامہ لاہور ہائی کورٹ میں چیلینج کیا۔

ابتدا میں لاہور ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔ مگر گورنر پنجاب کی طرف سے صدر کو بھیجی جانے والی رپورٹس کی ایک قانونی جریدے اور بعد ازاں ایک  اخبار میں اشاعت سے کیس  کے بارے میں نئی بحث جنم لینے لگی۔
ایس ایم ظفر ایڈوکیٹ نے اپنی کتاب ’میرے مشہور مقدمے‘ میں اس کیس کی تفصیلات بیان کی ہیں۔
یہ ایک اور دلچسپ اتفاق ہے کہ ان کے بیٹے بیرسٹر علی ظفر ایڈووکیٹ چودھری پرویز الٰہی کی طرف سے لاہور ہائی کورٹ میں گورنر کے حکم کے خلاف دائر کیے گئے کیس میں وکیل ہیں۔
ایس ایم ظفر نے عدالت میں موقف اختیار کیا کہ جب منظوروٹو کو اعتماد کا ووٹ لینے کا کہا گیا تو وہ بااختیار وزیراعلی نہیں تھے بلکہ ان کے اختیارات  گورنر نے سنبھال لیے تھے۔
انہوں نے یہ نکتہ بھی اٹھایا کہ گورنر کا نوٹس رات  11 بجے موصول ہوا تھا جس میں اگلے روز اعتماد کا ووٹ لینے کا کہا گیا تھا۔
تقریبا ایک برس کے بعد 29 اکتوبر 1996 کو ہائی کورٹ کے تین رکنی بینچ نے سماعت مکمل کی۔ عدالت کے طلب کرنے پر ایس ایم  ظفر نے منظور وٹو کی طرف سے تحریری یقین دہانی عدالت کی حضور پیش کی کہ اسمبلی کی بحالی کی صورت میں وہ پھر سے اس کی تحلیل کا مشورہ نہیں دیں گے۔ اور ساتھ یہ کہ وہ اعتماد کا ووٹ بھی لیں گے۔
شاید یہ محض اتفاق ہے یا  کہ عدالتی روایت ‏کہ 27   برسوں بعد انہیں  کے فرزند علی ظفر ایڈوکیٹ نے بھی عدالت کے طلب کرنے پر پرویز الٰہی کی طرف سے اسمبلی نہ توڑنے کی  تحریری گارنٹی جمع کروائی ہے۔
لاہور ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں گورنر کی طرف سے وزیر اعلی کی برطرفی کو غیر قانونی قرار دیا۔ منظور وٹو کو بحال کرتے ہوئے انھیں 10 روز میں اعتماد کا ووٹ لینے کا حکم دیا گیا۔ عدالتی حکم میں کہا گیا کہ اعتماد کا ووٹ نہ لینے کی صورت میں پچھلے وزیراعلی بحال تصور ہوں گے۔
معروف قانون دان حامد خان ایڈوکیٹ پاکستان کی عدالتی اور سیاسی تاریخ کے بارے میں اپنی کتاب ‘کنسٹیٹیوشنل اینڈ پولیٹیکل ہسٹڑی آف پاکستان‘ میں منظور وٹو کیس کا جائزہ لیا ہیں۔

پی ٹی آئی نے اعلان کیا تھا کہ پرویز الہی 11 جنوری سے پہلے اعتماد کا ووٹ لیں گے (فوٹو: ٹوئٹر)

ان کے مطابق عدالت نے قرار دیا تھا کہ اعتماد کے ووٹ کا بااختیار وزیراعلی کو ہی کہا جا سکتا ہے۔ اس  کیس میں ارٹیکل  234 کے اطلاق  کے بعد وزیراعلی کام چھوڑ چکے تھے۔ اس لیے ان حالات میں اعتماد کے ووٹ کا نہیں کہا جا سکتا تھا۔
حامد  خان کے مطابق عدالت کے فیصلے میں کہا گیا ہے کہ منظور وٹو کو اعتماد کا ووٹ لینے کے لیے صرف 16  گھنٹے کا وقت دیا گیا تھا جو کہ کافی نہ تھا۔
جب یہ فیصلہ آیا تو منظور وٹو کی اپنی جماعت مسلم لیگ جونیجو ان کے خلاف ہو چکی تھی۔ انہیں اعتماد کا ووٹ لینا مشکل لگ رہا تھا۔ اس کا حل یہ نکالا گیا کہ سپریم کورٹ میں اعتماد کے ووٹ کے لیے دی گئی مدت میں  اضافے کی درخواست دائر کی گئی۔
سپریم کورٹ نے 3 نومبر 1996 کو اپنے حکم نامے میں اعتماد کے ووٹ  کے لیے 16 نومبر کی تاریخ مقرر کی۔ اس حکم نامے کے دو دن بعد وفاق میں بینظیر بھٹو کی حکومت ختم کر دی گئی۔ تاہم پنجاب اسمبلی برقرار اور سیاسی جوڑ توڑ جاری رہا۔
اپوزیشن اراکین نے منظور وٹو  کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع کروا دی جس پر رائے شماری کے لیے بھی 16 نومبر کا دن رکھا گیا۔ 15 نومبر کو اپوزیشن نے تحریک واپس لے کر منظور وٹو کو عدم اعتماد کا ووٹ لینے پر مجبور کر دیا۔
مزید دباؤ بڑھانے کے لیے اپوزیشن کے اراکین نے اسمبلی کی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا۔ حالات سے مجبور ہو کر منظور وٹو کے پاس مستعفی ہونے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا جس کے بعد صوبے میں نئے انتخابات کے لیے اسمبلی توڑ دی گی۔
چوہدری پرویز الٰہی کی طرف سے گورنر کے حکم کو عدالت میں چیلنج کرنے کے بعد ہونے والی قانونی و سیاسی بحث میں منظور وٹو کیس کا حوالہ عدالتی نظیر کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔
مگر پاکستان کی سیاسی و عدالتی تاریخ میں تحریک عدم اعتماد اور اعتماد کے ووٹ کا ایک ایسا کیس بھی ہے جس میں سپریم کورٹ نے گورنر کی طرف سے وزیر اعلی کی برطرفی کو درست قرار دیا تھا۔
یہ کیس اس وقت کی سرحد (موجودہ خیبر پختونخوا) صوبے کی اسمبلی سے تعلق رکھتا ہے جس کو تحلیل کرنے کا اعلان عمران خان نے گذشتہ ماہ کیا تھا مگر اس پر عملدرآمد نہیں ہوا۔

سپیکر نے گورنر کا حکم نہیں مانا

پنجاب اسمبلی کے سپیکر سبطین خان نے 20 دسمبر کو ایک رولنگ میں گورنر پنجاب کی طرف سے وزیر اعلی پرویز الہی کے اعتماد کے ووٹ کے لیے صوبائی اسمبلی کا اجلاس طلب کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ جس کے لیے انہوں نے دلیل دی کہ صوبائی اسمبلی کا اجلاس پہلے سے چل رہا ہے جس کی وجہ سے نیا اجلاس طلب نہیں کیا جا سکتا۔

چوہدری پرویز الٰہی کی طرف سے گورنر کے حکم کو عدالت میں چیلنج کیا گیا ہے (فوٹو: ٹوئٹر)

گورنر پنجاب نے جوابی خط میں ان کی رولنگ کو غیر قانونی قرار دیا۔
فروری 1994 میں صوبہ سرحد (موجودہ خیبر پختونخوا) میں بھی اسی طرح کی صورتحال پیدا ہو گئی تھی۔ اس وقت کے قائمقام صوبائی گورنر جنرل ریٹائرڈ خورشید احمد خان نے وزیراعلی پیر صابر شاہ کو اعتماد کا ووٹ لینے کا کہہ کر 26 فروری کو اسمبلی کا اجلاس طلب کیا۔
اس دور کی صوبائی اسمبلی کے سپیکر ہدایت اللہ چمکنی نے اجلاس بلانے سے انکار کر دیا۔ ان کا قانونی جواز بھی پنجاب اسمبلی کے موجودہ سپیکر کے اختیار کردہ جواز  سے ملتا جلتا تھا۔
ان کا اصرار تھا کہ صوبائی اسمبلی کا موجودہ اجلاس  ختم نہیں ہوا ہے بلکہ 31 مارچ تک ملتوی ہوا ہے۔ ایسی صورت میں گورنر  اجلاس بلانے  کے مجاز نہیں۔ انہوں نے بھی سبطین خان کی طرح گورنر  کے نام خط میں بلائے گئے اجلاس کو غیر قانونی قرار دیا۔
صوبائی گورنر وزیراعلی کے سیاسی مناقشے کا کیا نتیجہ نکلا اس کی تفصیلی جاننے سے پہلے اس قضیے کا پس منظر سمجھنا ضروری ہے۔
وزیر اعلی کی برطرفی درست قرار 
اس وقت وفاق  میں پیپلز پارٹی کی حکومت تھی۔ صوبہ سرحد میں مسلم لیگ نون اور اے این پی کی اتحادی حکومت آزاد اراکین اسمبلی کی حمایت کے سہارے کھڑی تھی۔ کیونکہ ابھی فلور کراسنگ کا قانون منظور نہ ہوا تھا اس لیے ممبران کی سیاسی وفاداریاں بدلنے میں قانونی امر مانع  نہ تھا۔
وفاقی حکومت نے پیر صابر شاہ کو ہٹانے کے لیے ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی حوصلہ افزائی کی۔ اسے کامیاب بنانے کے لیے مسلم لیگ ن، اے این پی، جے یو آئی اور آزاد اراکین اسمبلی کو ساتھ ملایا گیا۔ یہاں تک کہ حکومت اور اپوزیشن کے ممبران کی تعداد برابر ہوگی۔
پیر صابر شاہ کی حکومت نے معاملے کو تکنیکی انداز میں نمٹانے کی منصوبہ بندی کی۔ 23 فروری کو تحریک عدم اعتماد کے لیے بلائے گئے اجلاس کے آغاز میں ہی سپیکر اسمبلی نے دو ممبران کو فلورکراسنگ کے الزامات کے تحت ووٹنگ کے لیے نااہل قرار دینے کی رولنگ دے کر ایوان سے نکال دیا۔
جس پر اسمبلی میں ہنگامہ آرائی ہوئی۔اس پہ مستزاد یہ کہ ڈپٹی سپیکر اسمبلی نے سپیکر کی رولنگ معطل کردی۔
تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ نہ ہونے کی وجہ سے گورنر  نے 26 فروری کو پیرصابرشاہ کو اعتماد کا ووٹ لینے کا حکم دیا۔
سپیکر کی جانب سے گورنر کے حکم کو غیر قانونی قرار دینے سے صوبے میں بحران کی صورتحال پیدا ہوگئی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کے صدر فاروق لغاری نے صوبے میں گورنر راج لگاتے ہوئے وزیر اعلیٰ اور ان کی کابینہ کو برطرف کردیا۔
اقتدار سے محروم ہونے کے بعد پیر صابر شاہ نے آئین کی دفعہ (3 )184 کے تحت سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔ ان کا موقف تھا کہ صوبائی حکومت تحلیل کرنے کا حکم بدنیتی پر مبنی ہے۔

اقتدار سے محروم ہونے کے بعد پیر صابر شاہ نے آئین کی دفعہ (3 )184 کے تحت سپریم کورٹ سے رجوع کیا۔ (فوٹو: اے پی پی)

سپریم کورٹ نے اکثریتی فیصلے میں صوبائی حکومت کی برطرفی کو قانونی قرار دیا۔ حامد خان ایڈووکیٹ فیصلے کے بارے میں اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں قرار دیا ہے کہ ایک طرف اپوزیشن وزیر اعلی کو ہٹانا چاہتی تھی تو دوسری طرف وزیراعلیٰ اور ان کی کابینہ اپنے عہدوں پر قائم رہنا چاہتے تھے۔
اس صورتحال میں سپیکر نے آئین کے آرٹیکل 130 (5 ) کے تحت گورنر کے نوٹس کے بعد اجلاس کی نئی تاریخ کا تعین نہیں کیا۔ حالانکہ اس آرٹیکل کے مطابق وزیر اعلی نے اعتماد کا ووٹ لینا ہوتا ہے۔
ایسی صورتحال میں ارٹیکل  234 کے تحت صدر کا ہنگامی حالت کا اعلان درست تھا۔
صوبہ سرحد میں اسے قبل 1993 کے بحران کے دوران وزیراعلی میر افضل خان کی طرف سے اسمبلی کی تحلیل کو بھی پشاور ہائی کورٹ نے درست قرار دیا تھا۔
اس عدالتی فیصلے نے صابر شاہ کے حوصلے پست کر دیے۔ پیپلزپارٹی کے آفتاب شیر پاؤ اسمبلی میں اکثریت ثابت کرکے نئے وزیراعلیٰ منتخب ہوگئے تھے۔
شاید یہ  محض اتفاق ہے کہ پنجاب میں منظور وٹو کی حکومت نہ صرف 1996 میں عدالت کے حکم سے بحال  ہوئی تھی بلکہ  1993 میں ان کے اپنے مشورے سے توڑی گی اسمبلی لاہور ہائیکورٹ نے بحال کر دی تھی۔

Caption

اس وقت بھی چودھری پرویز الہی نے عدالت سے رجوع کیا تھا۔ فرق اتنا ہے کہ 30 برس قبل وہ مسلم لیگ ن کی طرف سے وزارت اعلیٰ کے امیدوار تھے۔ اور آج اسی مسلم لیگ ن سے وہ اپنی وزارت اعلی بچانے کے لیے کوشاں ہیں۔
پنجاب میں حکومت کی قسمت کا فیصلہ اب لاہور ہائی کورٹ میں ہوگا۔ حکومت اور اپوزیشن کی طرف سے اختیار کیے جانے والے سیاسی و قانونی حربے اور جوڑ توڑ گذشتہ ادوار سے مختلف نہیں۔
ان  واقعات کو ماضی کے آئینے میں دیکھنے سے یہ حقیقت ضرور عیاں ہوتی ہے کہ پاکستانی سیاست میں پرانی غلطیاں دہرانے کا چلن عام ہے۔
سیاسی میدان میں بھی ہم نئے پن تک کے روادار نہیں خواہ وہ سیاسی غلطیاں ہی کیوں نہ ہو۔

شیئر: